Wednesday, May 13, 2020

❤❤اعتکاف کی شرعی حیثیت ❤❤

📚📚اعتکاف کی شرعی حیثیت ،اعتکاف کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا؟ مع اعتکاف کی قضا کا حکم اور طریقہ✍

🚨اعتکاف کی شرعی حیثیت 🚨
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر بعض مسلمانوں نے اعتکاف کرلیا تو تمام اہلِ محلہ کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، اور اگر پورے محلے میں کسی نے بھی اعتکاف نہ کیا تو تمام اہلِ محلہ گناہ گار ہوں گے۔ نیز مردوں کے لیے ایسی مساجد میں اعتکاف کرنا شرط ہے جہاں امام و مؤذن مقرر ہو، ایسی مساجد کے علاوہ مصلوں اور گھروں میں اعتکاف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ خواتین کے لیے اپنے گھر میں جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرنے کا حکم ہے۔

🚨 *سنت اعتکاف کے لیے روزے کی شرط:*🚨

سنت اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، روزے کے بغیر یہ اعتکاف درست نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اگر اعتکاف کے دوران معتکف نے کسی بھی وجہ سے روزہ نہیں رکھا یا اس کا روزہ کسی بھی وجہ سے ٹوٹ گیا تو اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔
(سنن ابی داؤدحدیث: 2475، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار، آپ کے مسائل اور ان کاحل، فتاویٰ عثمانی)

🚨 *مسئلہ:*
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اگر کوئی معتکف اس قدر بیمار ہوا کہ اس کو روزہ توڑنے کی نوبت پیش آئی تو روزہ توڑنے سے اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔

🚨*معتکف شرعی اجازت کے بغیر مسجد سے نہ نکلے:*
معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے ایام میں مسجدکی شرعی حدود ہی میں رہے ، کسی شرعی اجازت کے بغیر مسجد سے نہ نکلے۔ معتکف اگر کسی شرعی اجازت کے بغیر مسجد سے نکل جائے چاہے بھول کر ہو یا جان بوجھ کر تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ اگر اعتکاف بھول کر یا غلطی سے ٹوٹ جائے تو اس کا گناہ نہیں ہوتا۔
(سنن ابی داؤد حدیث:2475، احکامِ اعتکاف، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، رد المحتار علی الدر المختار، مسائلِ اعتکاف)

🚨 *مسجد سے باہر نکلنے کا مطلب:*
مسجد سے نکلنا اس وقت کہلائے گا جب دونوں پاؤں مسجد سے اس طرح باہر نکل جائیں کہ اسے عرف میں مسجد سے نکلنا کہا جا سکے۔ اس لیے معتکف مسجد میں رہتے ہوئے صرف سر ،یا ہاتھ، یا ایک پاؤں، یا بیٹھ کر یا لیٹ کر صرف دونوں پاؤں باہر نکال دے تو اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔
(صحیح البخاری حدیث: 2028، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، فتاوی ٰمحمودیہ)

🚨*معتکف کے لیے پیشاب اور قضائے حاجت کے لیے نکلنے کا حکم:*
1⃣ معتکف قضائے حاجت اور پیشاب کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے، لیکن اگر  فراغت کے بعد تھوڑی دیر بھی وہاں ٹھہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ اگر وضو کرنا چاہے تو وضو کے لیے ٹھہر سکتا ہے، لیکن وضو سے فارغ ہوجانے کے بعد فورًا مسجد لوٹ آنا ضروری ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار، مراقی الفلاح، مسائلِ اعتکاف)
2⃣ معتکف اگر قضائے حاجت کے لیے نکلے اور وہاں جاکر معلوم ہوکہ بیت الخلا مصروف ہے تو وہ وہاں انتظار بھی کرسکتا ہے۔ (احسن الفتاویٰ، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف)
3⃣ معتکف کے لیے اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے مسجد کے بیت الخلا کا استعمال سخت دشوار ہو تو وہ قضائے حاجت کے لیے گھر بھی جاسکتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار، فتاویٰ محمودیہ)
4⃣ معتکف کو پیشاب کے بعد قطرے نکلنے کا مرض ہوجس کی وجہ سے اس کو استنجا کی ضرورت پیش آرہی ہو تو وہ استنجا کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے ۔(مسائل اعتکاف ۔)

🚨 *معتکف کے لیے وضو کے احکام:*
1⃣ معتکف کو وضو کی ضرورت ہو اور مسجد کی شرعی حدود میں وضو کرنے کا انتظام بھی ہو تو ایسی صورت میں وضو کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں، البتہ اگر وضو کا انتظام نہ ہو تو وضو کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے۔
2⃣ اگر وضو خانے میں رش ہو تو معتکف وہاں انتظار بھی کرسکتا ہے، البتہ وضو سے فارغ ہوتے ہی فورًا مسجد لوٹ آنا ضروری ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،مسائلِ اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ، احسن الفتاویٰ)
3⃣ معتکف کو ہر نماز کے لیے خواہ وہ فرض ہو، واجب ہو،سنت ہو، نفل ہو، قضا نماز ادا کرنی ہو، تلاوت کرنی ہو، یا سجدہ تلاوت اداکرنا ہو؛ ان سب کے لیے جس وقت بھی چاہے وضو کرنے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز ہے اگر مسجد میں وضو کا انتظام نہ ہو۔البتہ اگر معتکف پہلے سے با وضو ہو تو اسے دوبارہ وضوکرنے کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں، لیکن اگر عینِ مسجد ہی میں وضو کا انتظام ہو تو با وضو ہوتے ہوئے بھی دوبارہ وضو کرسکتا ہے۔
4⃣ معتکف جب وضوکے لیے جائے تو وضو کے دوران مسواک اور ٹوتھ پیسٹ بھی کرسکتا ہے، صابن بھی استعمال کر سکتا ہے، بس کوشش کرے کہ ان اضافی کاموں میں وقت زیادہ خرچ نہ ہو۔
(احکامِ اعتکاف، احسن الفتاویٰ)

🚨 *معتکف کے لیے غسل کے احکام:*
1⃣ معتکف کو اگر احتلام ہوجائے تو مناسب یہ ہے کہ فورًا مسجد سے نکل جائے اور غسل کرکے فورًامسجد لوٹ آئے۔ مسجد سے نکلنے کے لیے کوئی خاص طریقہ نہیں بلکہ جیسے بھی ہو مسجد سے نکلنا درست ہے، لیکن اگر فورًا مسجد سے نکلنے کایا غسل کرنے کا موقع نہ ہو توتیمم کرکے مسجد ہی میں رہے، پھر جب موقع ملے تو جاکر غسل کرکے مسجد لوٹ آئے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، رد المحتار علی الدر المختار، مسائلِ اعتکاف)
2⃣ اعتکاف کی حالت میں صرف غسلِ جنابت کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے،اس کے علاوہ جو غسل صفائی یا ٹھنڈک کے لیے ہو یا جمعہ کا مسنون غسل ہو تو اس کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ عثمانی)
3⃣ اگر کوئی شخص صفائی یا ٹھنڈک کے لیے غسل کرنا چاہے تو اس کے لیے مسجد ہی میں ایسا انتظام کرلے کہ پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے، جیسے کسی ایسے ٹب یا بڑے برتن کا انتظام کرلیا جائے جس میں مناسب پردے کے ساتھ غسل کیا جاسکتا ہو۔(احکامِ اعتکاف، رد المحتار، مسائلِ اعتکاف، محمودیہ)
▪دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں کسی مناسب جگہ عارضی غسل خانہ بنایا جائے، جو صرف غسل کے لیے ہواور اس کا پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے۔ عارضی غسل خانہ بنانے کے لیے مستند اہل علم کی زیرنگرانی مناسب کوشش کرنی چاہیے۔
▪اگر مسجد میں ایسا کوئی انتظام نہ ہوسکتا ہو اور معتکف کو گرمی یا کسی اور وجہ سے نہانے کی شدید حاجت ہورہی ہو تو ایسی شدید مجبوری میں بعض اہلِ علم نے اتنی اجازت دی ہے کہ جب قضائے حاجت کے لیے جائے تو ساتھ میں جلدی سے غسل بھی کرتا آئے، اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا، البتہ کوشش یہ ہو کہ اس اجازت پر شدید مجبوری ہی میں عمل کیا جائے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، آپ کے مسائل اور ان کا حل، محمودیہ، فتاوی ٰدارالعلوم زکریا)

🚨 *مسئلہ:* معتکف کو احتلام ہوجائے اور وہ اسی  کپڑے کے نجاست والے مقام کو اچھی طرح دھو کر وہ لباس دوبارہ پہن لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

🚨 *کلی کرنے، ہاتھ دھونے، مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنے اور سر دھونے کے لیے نکلنے کا حکم:*
اعتکاف کی حالت میں کلی کرنے، مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنے اور سر دھونےکے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر چلا جائے چاہے بھول کر ہو، غلطی سے ہو یا جان بوجھ کر ہو تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے ان کاموں کی اگر ضرورت پڑرہی ہو تو مسجد ہی میں ان کے لیے ایسا مناسب انتظام کرلیا جائے کہ ان کے لیے مسجد سے باہر جانا بھی نہ پڑے اور پانی بھی مسجد میں نہ گرے۔ اسی طرح ہاتھ دھونے اور برتن دھونے کے لیے مسجد ہی میں مناسب انتظام کرلینا چاہیے۔
(مسائلِ اعتکاف، اعتکاف کے فضائل و احکام)

🚨 *معتکف کے لیے کنگھی کرنے اور بال وناخن کاٹنے کا حکم:*
اعتکاف کی حالت میں کنگھی کرنا، ناخن اور بال کاٹنا بھی جائز ہے البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ ناخن اور بال مسجد میں نہ گرنے پائیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف)
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معتکف کو چاہیے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ہی بال وناخن کاٹ لے تاکہ اعتکاف کے قیمتی لمحات ان اضافی کاموں میں صرف نہ ہوں۔

🚨 *معتکف کے لیے مسجد سے باہر بات چیت اور دعا سلام کا حکم:*
معتکف جب وضو یاقضائے حاجت وغیرہ کی ضرورت کے لیے مسجد سے نکلے تو آتے جاتے چلتے چلتے تو کسی کے ساتھ بات چیت اور دعا سلام کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ ان کاموں کے لیے تھوڑی دیر بھی ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، اسی طرح وضو کے دوران بھی وضو کرتے کرتے ضرورت کی بات چیت کرلی تو اس سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹتا، البتہ اس کے لیے ٹھہرنے سے اجتناب ضروری ہے۔
(سنن ابی داؤد حدیث: 2474، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ محمودیہ)

🚨 *جسم یا کپڑوں پر لگی نجاست دھونے کے لیے مسجد سے نکلنے کا حکم:*
معتکف کے بدن یا جسم پر اگر کوئی نجاست لگ جائے اور مسجد میں اس کو دھونے کا کوئی انتظام نہ ہویا مسجد میں اس کو دھونا مشکل ہو تو اس ناپاکی کو دور کرنے کے لیے مسجد سے نکلنا درست ہے۔
(مسائل ِ اعتکاف، اعتکاف کے فضائل و احکام)

🚨 *معتکف کے لیے کھانے پینے کے احکام:*
1⃣ اعتکاف کی حالت میں مسجد میں کھانا پینا جائز ہے، البتہ اس کے لیے مناسب انتظام ہونا چاہیے تاکہ مسجد کی صفائی بھی متاثر نہ ہو اور دوسروں کو تکلیف بھی نہ ہو۔
2⃣ معتکف کو کھانے پینے کی حاجت ہو اور کوئی لانے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ خود جاکر بھی لاسکتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ)

🚨 *نمازِ جمعہ کے لیے دوسری مسجد جانے کا حکم:*
1⃣ بہتر یہ ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں کرے جہاں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہو، لیکن اگر کوئی شخص ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھے جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لیے دوسری مسجد جاسکتا ہے۔
2⃣ جمعہ کے لیے جاتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں مسجد سے نکلے جب اس کو اندازہ ہو کہ جامع مسجد پہنچ کر چار رکعات سنت اداکرکے اس کے بعد خطبہ شروع ہوسکے۔ جمعہ کی فرض نماز ادا کرنے کے بعد چاہے تو سنتیں بھی وہاں ادا کرسکتا ہے۔
3⃣ کوئی شخص جمعہ کے لیے کسی جامع مسجد گیا اور پھر واپس نہ آیا بلکہ وہیں اعتکاف کے لیے ٹھہر گیا تواعتکاف تو صحیح ہوجائے گا لیکن ایسا کرنا مناسب نہیں۔
(اعتکاف کے فضائل واحکام، احکامِ اعتکاف، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، رد المحتار علی الدر المختار، مسائلِ اعتکاف)
4⃣ واضح رہے کہ اگر معتکف ایسے گاؤں اور دیہات کی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو جہاں جمعہ واجب نہ ہو تو اس کے لیے نمازِ جمعہ کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔

🚨 *اذان دینے کے لیے مسجد سے نکلنے کا حکم:*
اگر کوئی مؤذن کسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو اور اُس مسجد کی اذان کی جگہ مسجد کی شرعی حدود سے باہر ہو تو اذان دینے کے لیے مسجد کی شرعی حدودسے باہر نکلنا جائز ہے، مگر اذان کے بعد فورًا  مسجد لوٹ آئے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص باقاعدہ مؤذن تو نہیں لیکن کسی وقت اذان دینے کے لیے اسے مسجدکی شرعی حدود سے باہر نکلنا پڑے تو اذان کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہے۔
(اعتکاف کے فضائل واحکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر، مسائلِ اعتکاف)

🚨 *کسی گمشدہ بچے یا فوتگی کے اعلان کے لیے مسجد سے نکلنے کا حکم:*
کسی گمشدہ بچے یا کسی کی فوتگی کے اعلان کے لیے مسجد کی شرعی حدود سے باہر نکلنا درست نہیں، اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

🚨 *سنت اعتکاف میں کسی کام کے استثنا کا حکم:*
واضح رہے کہ سنت اعتکاف میں کسی کام کے لیے نکلنے کے استثنا کی نیت کرنا درست نہیں، اگر کسی نے اعتکاف شروع کرتے وقت استثنا کی نیت کی کہ مثلًا تراویح پڑھانے کے لیے دوسری مسجد جاؤں گا یا امتحان دینے جاؤں گا تو ایسی صورت میں وہ اعتکاف سنت نہیں رہے گا، بلکہ نفلی اعتکاف کہلائے گا۔
🚨*کن صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے؟*
جن صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے ان میں سے چند یہ ہیں:
1⃣ کوئی آدمی ایسا بیمار ہوجائے کہ اس کے لیے اعتکاف برقرار رکھنا مشکل ہوجائے یا اس کو علاج کے لیے مسجد سے نکلنا پڑ جائے۔
2⃣ کسی شخص کے والدین یا بیوی بچے اس قدر بیمار پڑ جائیں کہ ان کے لیے مسجد سے نکلنے کی ضرورت پیش آجائے۔
3⃣ جنازہ تیار ہو اور کوئی دوسرا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ہو۔
ان جیسی صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے، البتہ اس کی قضا لازم ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ (احکامِ اعتکاف)

🚨 *اعتکاف کی قضا کا حکم اور طریقہ:*
1️⃣ سنت اعتکاف جب ٹوٹ جائے تو اس کی قضا لازم ہوتی ہے۔ (احکامِ اعتکاف، فتاویٰ عثمانی)
2⃣ قضا اعتکاف کے لیے روزہ بھی ضروری ہے، اس لیے اگر ماہِ رمضان ہی میں قضا کرنی ہے تو اس صور ت میں تو روزہ ہوتا ہی ہے اور اگر رمضان کے علاوہ دیگر دنوں میں اعتکاف کی قضا کرنی ہے تو اس کے لیے روزہ رکھناضروری ہے۔
3⃣ رمضان کا سنت اعتکاف جب بھی ٹوٹ جائے تو صرف ایک دن کی قضا لازم ہوتی ہے۔
(احکامِ اعتکاف، فتاویٰ عثمانی، فتاویٰ محمودیہ)
4⃣ اگر اعتکاف صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے کے درمیان کسی وقت ٹوٹا ہو تو اس صورت میں صرف دن کی قضا لازم ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ صبح صادق کا وقت داخل ہونے سے پہلے قضا اعتکاف کی نیت سے مسجد آجائے، پھر جب سورج غروب ہوجائے تو یہ قضا اعتکاف پورا ہوجاتا ہے۔ اور اگر سورج غروب ہونے سے لے کرصبح صادق تک کسی وقت ٹوٹا ہے تو اس کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے قضا اعتکاف کی نیت سے مسجد آجائے، اور اگلے دن جب سورج غروب ہوجائے تو اس اعتکاف کا وقت ختم ہوجائے گا۔ (احکامِ اعتکاف)
5️⃣ وہ حضرات جن کا اعتکاف ٹوٹ جائے اور رمضان کے ایام ابھی باقی ہوں تو وہ گھر جاسکتے ہیں، لیکن اگر وہ گھر نہ جانا چاہیں بلکہ اعتکاف کی نیت سے مسجد ہی میں رہنا چاہیں تو ان کا یہ اعتکاف نفلی کہلائے گا، ان کے ذمّے سنت اعتکاف کی پابندیاں لاگو نہیں ہوں گی، البتہ انہیں چاہیے کہ وہ اسی رمضان میں اس اعتکاف کی قضا کرلیں، لیکن اگر وہ فی الحال قضا نہ کرنا چاہے تو بعد میں قضا کرلے، جس کا طریقہ اوپر بیان ہوچکا۔
وسلام محمد عاطف

No comments: