Tuesday, June 30, 2020

❤عید الاضحی ❤


عیدالاضحی ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 4 ﮐﮭﺮﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﮐﺎ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻫﻮتا ہے, ﺗﻘﺮﯾﺒﺄ 23 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻗصائی ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻤﺎتے ہیں۔
3 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﭼﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ والے ﮐﻤﺎتے ہیں۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﻫﻮتا ہے..
ﻧﺘﯿﺠﻪ : ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ملتی ہے ﮐﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﺎﺭﻩ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتا ہے.
ﺩیہاﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ملتی ہے۔
اربوں روپے ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻻﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍلے کماتے ہیں۔
ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ لیے مہنگا ﮔﻮﺷﺖ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ملتا ہے ,
ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتی ﻫﯿﮟ ,
ﭼﻤﮍﮮ ﮐﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﺎﻡ ملتا ہے,
ﯾﻪ ﺳﺐ ﭘﯿﺴﻪ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﻫﮯ ﻭﻩ ﺍﭘﻨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺧﺮﭺ ﮐﺮتے ہیں ﺗﻮ ﻧﻪ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﮐﮭﺮﺏ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﻫﻮتا ہے ...
ﯾﻪ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮔﻮﺷﺖ نہیں ﮐﮭﻼﺗﯽ , ﺑﻠﮑﻪ ﺁﺋﻨﺪﻩ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ,
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮٸی ﻣﻠﮏ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭘﯿﺴﻪ ﻏریبوﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻧﻬﯿﮟ ﻫﻮﻧﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺣﮑﻢ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ,
ﺍﮐﻨﺎﻣﮑﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﻮﻟﯿﺸﻦ ﺁﻑ ﻭﯾﻠﺘﮫ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﮑﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ﮐﻪ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻋﻘﻞ ﺩﻧﮓ ﺭﻩ ﺟﺎﺗﯽ ﻫﮯ ...
ماشاءالله ماشاءالله  ❤❤

Monday, June 29, 2020

❤شکر ادا کرو ❤


۔             👈  *شکر ادا کرو*  👉


ﮨﺮﻗﻞ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺧﺎﺹ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﺳﮯ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ لے کر ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺍِﺱ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ.. ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﺍُﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ فریج ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ..؟

       اﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ..؟

       ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ..؟

       ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺷﺘﺮ ﻣﺮﻍ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﮯ ﺟﻦ ﭘﻨﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﻨﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭﺍﮮ ﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ..؟

       ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﺎﺭ لے کر ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﺮﺍﭨﮯ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ.. ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﻏﺮﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﮨﻮﮔﺎ..؟
 
       ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺍُﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ.. ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ گیزر ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﺗﻮ..؟
       ﺟﻨﺎﺏ ﺁﭖ ﺑﺎﺩﺷــﺎھـﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ.. ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯿﮟ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﻻﮞ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ.. ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﻌﺘﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ.....


ﺍﻟﺤــﻤـﺪ ﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ، ﺷُــﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ، ﺧـﺎﻟـﻖ ﮐﯽ ﺍُﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺷُــﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑـﺘﺎ..


Sunday, June 28, 2020

❤❤اعتماد ❤❤


۔             👈  *اعتـــــــماد*  👉


ﮐﻨﮉﯾﮑﭩﺮ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﺎتھ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺳﺎتھ ﺑﯿﭩﮭﮯﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ
"ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ! ﺁﭘﮑﺎ *ﮐﺮﺍﯾﮧ* ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ."
ﺑﺎﺑﻮ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮑﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﮐﻨﮉﯾﮑﭩﺮ ﮐﻮ ﺩﮮﺩﯾﺎ...
ﺍﮔﻠﮯ ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﺲ ﺳﮯ ﺍُﺗﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻮ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺟﯿﺐ ﺳﮯﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ بیٹھ ﮔﯿﺎ,ﺍُﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ *ﺟﯿﺐ* کا *ﺻﻔﺎﯾﺎ* ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ.... 

ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﭼﻮﺭ ﮐﻮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﺍ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﻮﺭ ﺑﺎﺑﻮ ﮐﻮ *ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎ* ﮐﺮﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ." ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺗﻢ ﺳﮯﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺮﮔﺌﯽ"
ﺑﺎﺑﻮ ﻧﮯ ﻧﺮﻡ ﺩﻟﯽ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﺎ...
ﭼﻮﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﮯ ﻣﻠﺘﮯﻭﻗﺖ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺑﻮ ﮐﯽ *ﺟﯿﺐ ﮐﺎ ﺻﻔﺎﯾﺎ* ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ،،...

ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﺑﻮ ﺻﺎﺣﺐ
ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﮐﮩﯿﮟﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﺭﻭﮐﺎ.... ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺑﻮ *ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ* ﻣﺎﻧﮕﯽ,ﺑﺎﺑﻮ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﯾﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ *کولڈ ڈرِنک* ﭘِﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ.....
ﺑﺎﺑﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ  ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ پرﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍِﺱ ﺑﺎﺭ ﭼﻮﺭ ﺍُﺳﮑﯽ *ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ تھا*

_ﺳﺒـــــــق:_
*_ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ہِماری ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ہمارے ﺣُﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﮯ_* ﻋﻮﺍﻡ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣُﮑﻤﺮﺍﻥ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﻧﺌﮯ نئے ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﻟُﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ...!!!
*لیکن عوام ھیں کہ عقل کے اندھے ھیں*...+*
💞💞💞💞💞

Saturday, June 27, 2020

❤فتنہ دجال❤


#دجال

دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہو گا. دونوں پاؤں ٹیڑھے ہوں گے ۔ جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی۔ رنگ سرخ یا گندمی ہو گا۔ سر کے بال حبشیوں کی طرح ہوں گے۔ ناک چونچ کی طرح ہو گی۔ بائیں آنکھ سے کانا ہو گا۔ دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا۔ اس کے ماتھے پر ک، ا، ف، ر لکھا ہو گا جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا۔

اس کی آنکھ سوئی ہوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا۔ شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا، لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا۔
 اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اسکے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہو گا. ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا۔

دجال پکا جھوٹا اور اعلی درجہ کا شعبدے باز ہو گا۔ اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہو ں گی۔ زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے۔
جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گا، دجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے اور درختوں پر پھل آجائیں گے۔

کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماؤں اور باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے۔۔؟
 لوگ اثبات میں جواب دیں گے۔
اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماؤں اور باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے۔ نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

 اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بادلوں کی طرح رواں ہو گی۔ وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا۔
 تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی، امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہے گا مگر فرشتوں کی پہرہ داری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا۔ اس لئے نامراد وذلیل ہو کر واپس مدینہ منورہ کا رخ کرے گا۔

اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا ہو گا۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔
انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا۔ جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے۔ باہر نکلتے ہیں دجال انہیں لقمہ تر کی طرح نگل لے گا۔

آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اور خاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے۔ لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی۔ لہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال (نعوذ بااللہ) کی اجازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے.

چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا. جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا : "میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرے ہی خروج کی خبر دی تھی۔"
دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ درباری فوراً اس بزرگ کے دو ٹکڑے کر دیں گے۔

دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا۔ یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔

دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا  ادھر وہ بزرگ بوجہ حکم الہی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آ گیا ہے کہ تو ہی دجال ملعون ہے۔
وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اسکی قوت سلب کر لی جائے گی۔
دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا  لیکن یہ آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی۔

۔اس کے بعد وہ شام کا رخ کرے گا۔ لیکن دمشق پہنچنے سے پہلے ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہوں گے۔
 
دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہے گا۔ ایک دن ایک سال دوسرا دن ایک مہینہ اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا۔ بقیہ معمول کے مطابق ہوں گے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنے مادی و افرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہو گا۔ اس لئے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل نظر آ رہی ہو گی مگر اللہ کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہو گا ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہوں گے۔
تمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد میں جامع اموی میں ادا کرتے ہوں گے۔
ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کواٹر ہو گا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک دن نماز پڑھانے کے لئے مصلے کی طرف بڑھیں گے تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزو ل ہوگا۔

نماز سے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لئے نکلیں گے۔ دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر و ہجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔

پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے۔
خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔

(مسلم، ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد)

اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا ایمان سلامت رکھے۔
آمین ثم آمین یارب العالمین

(یاد رہے کہ فتنہ دجال سے آگاہی تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جبکہ آج یہ سنت مٹ چکی ہے. 
لہٰذا اس سنت کوزندہ کرتے ہوئے اس پوسٹ کو بار بار پڑھیںِ اوردوسروں تک پہنچائیں۔“
💞💞💞💞💞

Friday, June 26, 2020

❤گھر والوں کا احترام سیکھ لو ❤


👈  *گھروالوں کااحترام سیکھ لو*  👉


ایک روز شوہر نے پرسکون ماحول میں اپنی بیوی سے کہا :
بہت دن گزر گئے ہیں میں نے اپنے گھر والے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں سے ملاقات نہیں کی ہے۔ 
میں ان سب کو گھر پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہوں
 اس لیے براہ مہربانی تم کل دوپہر اچھا سا کھانا تیار کر لینا۔

بیوی نے گول مول انداز سے کہا :
            ان شاء اللہ 
 خیر کا معاملہ ہو گا۔

شوہر بولا :
 تو پھر میں اپنے گھر والوں کو دعوت دے دوں گا۔

اگلی صبح شوہر اپنے کام پر چلا گیا اور دوپہر ایک بجے  گهر واپس آیا۔
 اس نے بیوی سے پوچھا : 
کیا تم نے کھانا تیار کر لیا ؟
 میرے گھر والے ایک گھنٹے بعد آ جائیں گے !

بیوی نے کہا :
 نہیں میں نے ابھی نہیں پکایا کیوں کہ تمہارے گھر والے کوئی انجان لوگ تو ہیں نہیں لہذا جو کچھ گھر میں موجود ہے وہ ہی کھا لیں گے۔ 

شوہر بولا : 
اللہ تم کو ہدایت دے ... 
تم نے مجھے کل ہی کیوں نہ بتایا کہ کھانا نہیں تیار کرو گی ،
 وہ لوگ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائیں گے

 پھر میں کیا کروں گا۔ 

بیوی نے کہا :
 ان کو فون کر کے معذرت کر لو ۔۔۔
 اس میں ایسی کیا بات ہے وہ لوگ کوئی غیر تو نہیں آخر تمہارے گھر والے ہی تو ہیں۔ 

شوہر ناراض ہو کر غصے میں گھر سے نکل گیا۔ 

کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔
 بیوی نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے اپنے گھر والے ، 
بہن بھائی اور ان کے بچے گھر میں داخل ہو رہے ہیں !

بیوی کے باپ نے پوچھا :
 تمہار شوہر کہاں ہے ؟

وہ بولی :
 کچھ دیر پہلے ہی باہر نکلے ہیں۔
 
باپ نے بیٹی سے کہا :
 تمہارے شوہر نے گزشتہ روز فون پر ہمیں آج دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ۔۔ 
یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دعوت دے کر خود گھر سے چلا جائے !

یہ بات سُن کر بیوی پر تو گویا بجلی گر گئی۔
 اس نے پریشانی کے عالم میں ہاتھ ملنے شروع کر دیے کیوں کہ گھر میں موجود کھانا اس کے اپنے گھر والوں کے لیے کسی طور لائق نہ تھا.
 البتہ یقینا اس کے شوہر کے گھر والوں کے لائق تھا۔ 
اس نے اپنے شوہر کو فون کیا اور پوچھا : 
تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ دوپہر کے کھانے پر میرے گھر والوں کو دعوت دی ہے۔ 
شوہر بولا :
 میرے گھر والے ہوں یا تمہارے گھر والے ۔۔۔ 
کیا فرق پڑتا ہے۔ 

بیوی نے کہا : 
میں منت کر رہی ہوں کہ باہر سے کھانے کے لیے کوئی تیار چیز لے کر آجاؤ ، 
گھر میں کچھ نہیں ہے۔

شوہر بولا : 
میں اس وقت گھر سے کافی دُور ہوں اور ویسے بھی یہ تمہارے گھر والے ہی تو ہیں کوئی غیر یا انجان تو نہیں۔ 
ان کو گھر میں موجود کھانا ہی کھلا دو جیسا کہ تم میرے گھر والوں کو کھلانا چاہتی تھیں.. 
"تا کہ یہ تمہارے لیے ایک سبق بن جائے۔
جس کے ذریعے تم میرے گھر والوں کا احترام سیکھ لو" !.

لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تم خود ان کی طرف سے اپنے ساتھ معاملہ پسند کرتے ہو

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔*
💞💞💞💞💞

Thursday, June 25, 2020

❤قدرت کا انمول تحفہ ❤


.       👈  *قدرت کا انمول تحفہ*  👉


جب جوانی چڑھ گئی تو میں  گھر دیر سے آنے لگا، رات دیر تک گھر سے باہر رہنا دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا  اور پھر رات دیر تک جاگنے اور دیر سے گھر آنے کی وجہ سے سارا سارا دن سوئے رہنا معمول بن گیا، 
امی نے بہت منع کیا اور بہت سمجھایا کہ بیٹا یہ کام ٹھیک نہیں لیکن میں باز نہ آیا۔ شروع شروع میں وہ میری وجہ سے دیر تک جاگتی رہتی تاکہ دل کو سکون پہنچے کہ میرا بیٹا خیر خیریت سے گھر واپس آ گیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ جب میں اپنے اس کام سے باز نا آیا  تو امی سونے سے پہلے فریج کے اوپر ایک چٹ لگا کر سو جاتی، جس پر کھانے کے بارے میں اور جگہ کے بارے میں لکھا ہوتا تھا۔

 آہستہ آہستہ چٹ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا چٹ پر لکھا ھوتا کہ "گندے کپڑے کہاں رکھنے ہیں اور صاف کپڑے کہاں پر رکھے ہیں" جیسے جملے بھی لکھے ملنے لگے، نیز یہ بھی کہ آج فلاں تاریخ ہے اور کل یہ کرنا ہے پرسوں فلاں جگہ جانا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا ۔ ۔ ۔

ایک دن جب  میں رات دیر سے گھر  آیا، بہت تھکا ہوا تھا۔ حسب معمول فریج پر چٹ لگی ہوئی دیکھی لیکن بغیر پڑھے میں سیدھا بیڈ پر گیا اور سو گیا۔
 صبح سویرے والد صاحب کی چیخ چیخ کر پکارنے اور رو نے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ ابو کی آنکھوں میں آنسو تھے انہوں یہ بری خبر سنائی کہ بیٹا تمھاری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں ۔

 میرے تو جیسے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، غم کا ایک پہاڑ جیسے میرے اوپر آگرا۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو میں نے امی کے لئے یہ کرنا تھا ، وہ کرنا تھا۔ ۔ ۔ ابھی تو میں سدھرنے والا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو امی سے کہنے والا تھا کہ اب میں رات دیر سے نہیں آیا کروں گا ۔ ۔ ۔
 
جب تدفین وغیرہ سے فارغ ہو کر رات کو جب میں نڈھال ہوکر بستر پر لیٹا تو اچانک مجھے امی کی رات والی چٹی یاد آگئی،  جو فریج پر ابھی تک لگی ھوئی تھی میں فورا گیا اور اتار کر لے آیا، اس پر لکھا تھا:

"بیٹا آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے، میں سونے جا رہی ہوں ، تم جب رات کو آؤ تو مجھے جگا لینا، مجھے ذرا ہسپتال تک لے جانا ۔ ۔۔ 
خدارا اپنے ماں باپ کا احترام کرو ان کے ساتھ عزت سے پیش آؤ۔۔۔یہ وقت کا پھیر ھے آج تم اپنے والدین کو برا بھلا کہو گے کل تمہاری اولاد بھی تمھارے ساتھ یہی سلوک کرے گی۔
خدا کے واسطے اپنے والدین کی قدر کرو یہ قدرت کا انمول تحفہ ھے اور یہ ایک بار چلے جائیں تو پھر کھبی واپس نہیں آتے۔*
💞💞💞💞💞💞

Wednesday, June 24, 2020

❤گردن کا مسح ❤


.            👈  *گردن کا مسح*  👉


ایک شخص فرانس کے ائر پورٹ پر وضو کر رہا تھا تھا اس سے کسی نے پوچھا کہ آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں اس نے کہا پاکستان سے ۔ سائل نے پوچھا کہ پاکستان میں کتنے پاگل خانے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے تعداد کا پتہ نہیں ویسے چند ایک ہی ہوں گے۔ سائل نے کہا کہ یہاں پر بہت زیادہ پاگل خانے ہیں اور میں یہاں کے ایک پاگل خانے کے ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ میری پوری عمر اس تحقیق میں گزری ہے کہ لوگ پاگل کیوں ہوتے ہیں؟ اور پاگل پن سے بچنے کے لیے کیا کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے ۔میری تحقیق کے مطابق جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی گردن کے پچھلے حصے کو خشک رکھتے ہیں۔ کھچاؤ کی وجہ سے رگوں پر اسکا اثر ہوتا ہے۔ جو لوگ اس جگہ کو وقتاً فوقتاً نمی پہنچاتے رہیں وہ پاگل ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے ہاتھ پاؤں دھونے کے ساتھ ساتھ گردن کے پیچھے کے حصے پر بھی گیلے ہاتھ پھیرے۔ جس سے مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ آپ کو یہ طریقہ کس نے بتایا اس شخص نے بتایا کہ وضو کرتے وقت گردن کا مسح کیا جاتا ہے اور ہر نمازی دن میں پانچ مرتبہ گردن کا مسح کرتا ہے۔ اور یہ بات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے ڈاکٹر کہنے لگا کہ اسی لئے آپ کے ملک میں لوگ کم تعداد میں پاگل ہوتے ہیں۔
اللہ اکبر۔ ایک ڈاکٹر کی پوری زندگی کی تحقیق نبی علیہ السلام کے بتائے ہوئے ایک چھوٹے سے عمل پر آ کر ختم ہو گئ
💞💞💞💞💞

Tuesday, June 23, 2020

❤سوشل پروفائل اور اسٹیٹس❤


*📱سوشلی پروفائل اور اسٹیٹس کا برا حال📸*
➖➖➖➖
مسلمانو!
     آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اسلام سے اور کتنا دور ہوں گے؟ کہیں سے آپ کے اندر مسلمانوں کی پہچان نظر آتی ہے؟ کیا قرآن نہیں کہتا ”اسلام میں مکمل طریقے سے داخل ہو جاؤ“؟ پھر کب آپ پورے مسلمان نظر آئیں گے؟
غور کریں!!
ذرا ایک نظر ڈالیں اپنے اوپر؛
_____سروں پر ٹوپی تو کجا عورتوں کو دوپٹا بھی بوجھ لگے!! 
_____مردوں کے بالوں کی کٹنگ عورتوں اور گھوڑوں، گدھوں سی تو عورتوں کے بال مردوں سے!! 
_____چہرے کا حال بگڑا ہوا!!
_____مردوں کے گلوں میں لوہے کی سکڑیاں!!
_____اوپر سے نیچے تک غیروں کا لباس!!
_____کیا کیا شمار کرائیں اب آپ خود دیکھ لیں اپنے آپ کو اور اپنے مذہب کو!!
*❗یہ سب انٹرلی اور حقیقی اسٹیٹس کی جھلکیاں تھیں؛ اب دیکھیے اپنا سوشلی اسٹیٹس🪐*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
     آپ کی سوشلی حیثیت تو اور بھی بدتر نظر آتی ہے؛ آااہ
_____آپ سے کال کر کے خیریت لینا چاہو تو رنگ ٹان پر اگر دھیان دے دیا (لطف اندوز ہونے لگے) تو خیریت کے ساتھ گناہ بھی ساتھ لیتے آؤ کہ آپ( اسلامی بھائی/بہن) نے گانا جو لگایا ہے!!
_____اگر واٹسپ پر بات چیت کرنا چاہو تو پہلے پروفائل پر لگی گندی تصویروں سے نظر پھیرنے کی حد درجہ کوشش کرو ورنہ ایک نظر کے بعد جان بوجھ کر اگر دیکھنے لگے تو یہاں سے گناہ کا بیڑا لادے ہوئے آؤ!!
_____اور ہاں! اگر اسٹیٹس جو کہ اپنی حالت اور حیثیت بتانے کے لیے بنایا گیا ہے؛ اگر متعلقین کی حالت یعنی سوشلی اسٹیٹس دیکھنا چاہیں تو وہاں بھی گناہوں کے سوا ثواب اور اسلام سے دوری کی جگہ قربت کم ہی نصیب ہو سکتی ہے - (إلا ماشاء اللہ)
*آااہ مسلماں______!!!*
کیوں غور نہیں کرتے!!
_____خود تو سوشل میڈیا پر گناہوں میں ملوث رہتے ہی ہو ساتھ اپنے متعلقہ افراد کو بھی گناہ سے بچنے نہیں دیتے!!
_____آخر یہ کیسا دھن ہے کہ روزانہ اسٹیٹس پر نئے نئے گانا لگانا ہی ہے!!
_____یہ کیسی ضد ہے کہ پروفائل سے دن میں چار پانچ خوبصورت لڑکیوں کی تصویر بدلنی ہے!!
*للہ ہوش میں آئیں؛ سمجھیں؛ غور کریں!!*
     عورت کی تصویر چاہے چہرہ کی ہو یا ہاتھ پیر یا بدن کے کسی بھی حصہ کی اس کا پردہ کرنا یعنی چھپانا ہم پر ضروری ہے - 
نیز____ یہ بھی یاد رہے کہ صرف اپنی یا اپنے متعلقات ہی کی تصویریں چھپانا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی عورت کی پِک وائرل کرنا گناہ ہے - چاہے اس نے خود ہی اپنی تصویر کیوں نہ وائرل کیا ہو مگر آپ آگے بڑھا کر اپنے پروفائل، اسٹیٹس پر لگا کر یا اس کے فوٹو کو لائک کر کے گناہ میں اس کی مدد کرنے والی بن جائیں گی کہ وہ لائک اور شیئر کرنے سے مزید حوصلہ پائے گی اور گناہ میں بڑھتی ہی چلی جائے گی جس کے وبال کی کہیں نہ کہیں سے آپ بھی ذمہ ہو سکتی ہیں -
*🌹وعدہ کریں!!*
     ہم سب کو کبھی بھی اپنے پروفائل یا اسٹیٹس پر کسی بھی عورت یا لڑکی کی تصویر ہر گز نہیں لگانی ہے چاہے وہ اپنا چہرہ ڈھکی ہی کیوں نہ ہو کہ یہ بھی مناسب نہیں ہے پھر بلا ضرورت ہم اپنے سر کیوں گناہ لادیں؟؟
اور نہ ہی رنگ ٹان پر گانا لگائیں گے کہ یہ کہیں سے مسلمانوں کی پہچان نہیں ہے -
*اہم نوٹ :* آپ اپنے متعلقین کو بھی سمجھائیں ایسی حرکتوں سے روکنے کی کوشش کریں مگر اس کے باوجود بھی اگر نا کامی ملے اور نمبر سیو رکھنا مجبوری ہو تو گناہوں سے بچنے کے لیے کم از کم اس کے واٹسپ اسٹیٹس کو Mute پر کر دیں تاکہ آپ کی نظر اس پر نہ جائے اور آپ گناہوں سے محفوظ رہ سکیں -
💞💞💞💞💞

Monday, June 22, 2020

❤دعا کی اہمیت ❤


*"أَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ"* *الحدیث*
*ترجمہ:یعنی دعا عبادت کا مغز ہے*

 1⃣سْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہٗ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ لاَّ نَبِیَّ بَعْدَہٗ

🗒️ *دعا کی اہمیت*

دعا کے معنی اپنی ضروریات کو خدا کے سامنے پیش کر کے خدا کو منواکر اپنی حاجتوں کو پورا کراناہے ، جب بندہ خدا سے مانگتاہے تو خدا اس کے مانگنے کو بے حد پسند کرتے ہیں اور ارشادِ خداوندی ہوتا ہے کہ میرے بندے مانگ جو کچھ مانگنا ہے ، دعاکی تاکید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اللہ تعالی سے دعا نہ مانگے تو اللہ تعالی اس سے ناراض ہوتے ہیں ۔ آپ نے دعا کو تمام عبادتوں کا مغز قرار دیاہے ، نیز ارشادِنبویؐ ہے کہ دعا مانگنا تمام پیغمبروں کی سنت ہے ۔
اسلام میں دعاء کی اہمیت بہت ہے ۔ شریعت نے اس کے لئے قواعد وضوابط مقرر کئے ہیں جس کا لحاظ کیا جائے تودعا کی قبولیت میں کسی بھی قسم کا شک وشبہ نہیں کیاجاسکتا ۔ اس لئے کہ وعدۂ خداوندی ہے کہ جب میرا بندہ مجھ سے کوئی چیز طلب کرتا ہے تو میں اس کی پکار کو سنتاہوں اور اس کی دعاقبول بھی کرتاہوں ۔
دعاکی قبولیت کے تین درجے ہیں پہلادرجہ یہ ہے کہ جب بندہ بارگاہِ خداوندی میں کسی چیز کو طلب کرتاہے تو خداما نگنے والے کی کیفیت کوخوب جانتاہے ، اگر مانگنے والا مانگی ہوئی چیز کو برداشت کرسکتا ہے تو خدا اس کو وہی مانگی ہوئی چیز عطا کرتاہے ۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر برداشت کرنے کی طاقت نہ ہونے کے باوجود بھی طلب کرتاہے تو خداوند قدوس اس کی طلب کردہ چیز کے بجائے دوسری کوئی چیز عنایت فرماتاہے اس طرح نوازتے ہیں کہ مانگنے والے کو گمان بھی نہیں ہوتا ۔ تیسرا درجہ یہ ہے جب بندہ کسی چیز کے لئے دعا کرتاہے جس چیز کا وہ اہل ہے وہی چیزمانگ رہاہے تو خدا تعالی ملائکہ کو حکم فرماتے ہیں کہ میرے فلاں بندے نے فلاں چیز کو طلب کیا اس کے عوض اتنی نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں درج کردو یہ یقین کرلیجئے کہ مومن کی دعا کبھی بھی رد نہیں کی جاتی ، کسی نہ کسی نوعیت سے انشاء اللہ دعاضرورقبول ہوکر رہے گی بشرطیکہ مومن کا دل خلوص وللہیت سے لبریز ہو ، توکل کا مجسمہ بنا ہواہو ، صبروضبط کا آئینہ دار ہو اور اسکا کھانا اور پہننا حلال ہو ، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم تمام کو صرف اسی سے مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )

📖القرآن 
🖋️ *کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ.*
📝 *ترجَمہ* 
        *تم بہترین امت ہو کہ لوگوں کے( نفع رَسانی)کے لیے نکالے گئے ہو،تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے ہو اور بُرے کام سے منع کرتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔ (بیان القرآن )*

Sunday, June 21, 2020

❤کسی کو نیچا دکھانا ❤


۔      👈 *کسی کو نیچا دیکھانا* 👉


استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط بچے کو بلایا، اسے اپنے سامنے کھڑا کیا، اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور اسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ وہ بچہ تگڑا تھا، وہ اکڑ کر کھڑا رہا۔
استاد محترم نے اپنا پورا زور لگانا شروع کر دیا۔ وہ بچہ دبنے لگا اور بالآخر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ استاد محترم بھی اسے دبانے کے لئے نیچے ہوتےچلے گئے۔ وہ لڑکا آخر میں تقریباً گر گیا۔ استاد صاحب نے اس کے بعد اسے اٹھایا اور کلاس سے مخاطب ہوئے۔۔۔
”آپ نے دیکھا مجھے اس بچے کو نیچے گرانے کے لئے کتنا زور لگانا پڑا ؟" دوسرا یہ جیسے جیسے نیچے کی طرف جا رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے۔“ 
وہ اس کے بعد رکے، لمبی سانس لی اور بولے 
”یاد رکھئیے ۔۔۔!!!
ہم جب بھی زندگی میں کسی شخص کو نیچے دبانے کی کوشش کرتے ہیں، تو صرف ہمارا ہدف ہی نیچے نہیں جاتا، ہم بھی اس کے ساتھ زمین کی سطح تک آ جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا، ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا درجہ، ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے۔
استاد صاحب اس کے بعد رکے اور بولے؛ 
"باکمال انسان کبھی کسی کو نیچے نہیں گراتا، وہ ہمیشہ گرے ہوﺅں کو اٹھاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے۔ اور یوں وہ بلند ہوتا رہتا ہے.

*︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗
💞💞💞💞💞💞💞

❤دعا کی قبولیت کا طریقہ ❤


👈     *دُعا کی قبولیت کا طریقہ*     👉


پچھلے دنوں راس الخیمہ جانا ہوا تو راستے میں ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز کے لیے رُکا - دوپہر کا وقت تھا حسب عادت پہلے صفت میں بیٹھا تو میرے برابر میں ایک بزرگ بیٹھے تھے کالے لیکن چہرے پر بلا کا نور تھا - میں نے سوچ لیا کے نماز کے بعد ان سے ضرور ملوں گا -

جماعت ختم ہوئی تو وہ مسجد کے ایک کونے میں قرآن لیکر بیٹھ گئے - میںُ ہمت کرکے قریب گیا اور سلام کیا اور پوچھا اردو معلوم ہے؟

انھیں بہت اچھی طرح اُردو آتی تھی ان کا تعلق یمن کی ایک تبلیغی جماعت سے تھا - قصہ مختصر بہت باتیں ہوئیں اُٹھتے وقت میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے صاحب دعا قبول ہونے کا کوئی بہترین طریقہ تو بتائیں!

کہنے لگے ۱۰۰% گارنٹی کے ساتھ دعا کی قبولیت کا طریقہ بتاؤں ؟ میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے، کہنے لگے اللہ میاںُ رد ہی نہیں کرتا میںُ نے بے چین ہوکر کہا جی بسم اللہ

کہنے لگے میاں ہر نماز میں سب سے پہلے اپنے ماں باپ کے لیے دعا مانگو چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ
کیونکہ اللہ کے پاس تمہارے لیے ان کی دعائیں تب سے جمع ہو رہی ہوتی ہیں جب سے تم پیدا ہوئے ہو ۔

کہنے لگے یہ عمل آج سے ہی کر کے دیکھو ، سراب دیکھا ہے نہ جیسے جیسے اس کے قریب جاؤ وہ مٹتا جاتا ہے دعا کے اس عمل سے تمہاری زندگی سے پریشانیاں اسی سراب کی طرح مٹتی جائیں گی ان شاء اللہ ۔
یقین کریںُ اس دن کے بعد سے میں نے ایک بار بھی ناغا نہیں کیا اور راستے ایسے کھل رہے ہیں جیسے صبح رات کو کاٹ کر روشنی پھیلاتی ہے۔
💞💞💞💞💞💞

Saturday, June 20, 2020

❤سورج گرہن ❤


*🌒"گرہن لگنا اللہ کی نشانیوں میں سے  ہے جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ زندہ دل اس نشانی کو دیکھ کر دہل جاتے ہیں اور اچھے حالات کے پھر جانے پر خوفزدہ ہوتے ہیں۔ یہ نشانی مومن کو یاد دلاتی ہے کہ اللہ اس کی پکڑ کرنے پر اور اس کے حالات بدل دینے پر قادر ہے! اس لیے اہل ایمان کو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑیں، نماز، صدقہ و خیرات، ذکر و دعا اور استغفار کی طرف لپکیں جب تک یہ نشانی برقرار رہے ...!!!"*


★ 🌒 *سورج گرہن میں مستحب اعمال 👇🏻*🌑

★ نماز کسوف کا اہتمام
★ صدقہ و خیرات کرنا
★  الله كو کثرت سے یاد کرنا
★ دعا مانگنا
★ استغفار کرنا
★ الله کی بڑائی بیان کرنا(تکبیر کہنا)
💞💞💞💞💞

❤❤غلطی کی اصلاح ❤❤


*: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*

*

🌻 *سورج گرہن: حقیقت، اعمال اور احکام*

📿 *سورج گرہن کی حقیقت:*
فلکیاتی رو سے سورج گرہن ظاہری طور پر اس وقت  ہوتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں آجائے جس کی وجہ سے سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، جبکہ دین اسلام کی رو سے سورج گرہن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی اہم نشانیوں میں سے ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی عظمت وجلال کا اظہار فرماتے ہیں، اپنے بندوں کے دلوں کو خوف وخشیت پیدا فرماتے ہیں اور اپنے عذاب سے ڈراتے ہیں۔
ایک مؤمن کا یہی عقیدہ ہے کہ سورج اور چاند سمیت کائنات کا یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم کے تحت جاری وساری ہے، اس میں ہونے والی تبدیلیاں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہوتی ہیں، یہی حال سورج گرہن کا بھی ہے۔ اس وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بندے نماز ادا کرکے، توبہ واستغفار اور ذکر کرکے اور صدقہ دے کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں، اس کی عظمت وجلال کا اعتراف کریں، دلوں میں اس کی خشیت پیدا کریں اور عذابِ الہٰی سے پناہ مانگیں۔
───────────
───────────
🌼 *سورج گرہن کی حقیقت اور اعمال سے متعلق احادیث مبارکہ:*
متعدد احادیث مبارکہ میں سورج گرہن کی حقیقت اور اس وقت کیے جانے والے اعمال کا ذکر موجود ہے۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ حضرت عبد الله بن عمر  رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’سورج گرہن اور چاند گرہن لوگوں میں سے کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم سورج اور چاند گرہن ہوتا ہوا دیکھو تو نماز ادا کرو۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1042- حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَن ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَن النَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا.

2️⃣ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں (حضور ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کے فوت ہونے کے دن سورج گرہن ہوگیا، تو لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ:’’ حقیقت یہ ہے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے نہیں ہوتے، اس لیے جب تم گرہن ہوتا ہوا دیکھو تو تم نماز ادا کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1043- عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَن الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا اللهَ.

3⃣ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جب تم سورج اور چاند گرہن ہوتا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، تکبیرات پڑھو، نماز ادا کرو اور صدقہ کرو۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1044- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالنَّاسِ .... ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا.

4⃣ حضرت ابو بکرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت کی وجہ سے نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کے دلوں میں خوف وخشیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1048- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَن الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّ اللهَ تَعَالَى يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ.

5️⃣ سنن ابی داود کی ایک روایت میں سورج گرہن کے وقت تسبیح (یعنی سبحان اللہ)، تحمید (یعنی الحمدللہ)، تہلیل (یعنی لا الٰہ الا اللہ) پڑھنا اور دعا مانگنا بھی ثابت ہے:
1197- عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَتَرَمَّى بِأَسْهُمٍ فِى حَيَاةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ إِذْ كُسِفَتِ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهُنَّ وَقُلْتُ: لأَنْظُرَنَّ مَا أُحْدِثَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فِى كُسُوفِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يُسَبِّحُ وَيُحَمِّدُ وَيُهَلِّلُ وَيَدْعُو حَتَّى حُسِرَ عَنِ الشَّمْسِ فَقَرَأَ بِسُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ.

📿 *سورج گرہن کے وقت احادیث سے ثابت ہونے والے اعمال:*
ماقبل میں مذکور احادیث مبارکہ سے سورج گرہن کے وقت متعدد اعمال ثابت ہوتے ہیں جیسے:
1⃣ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا اہتمام کرنا۔
2️⃣ سورج گرہن کی نماز ادا کرنا جس کو نمازِ کُسُوف کہتے ہیں۔
3⃣ دعاؤں کا اہتمام کرنا، توبہ واستغفار کرنا اور عذابِ خداوندی سے پناہ مانگنا۔
4⃣ ذکر وتسبیحات کا اہتمام کرنا۔
5️⃣ حسبِ وسعت صدقہ دینا۔
📿 *سورج گرہن سے متعلق تَوَہُّمات کی حقیقت:*
سورج گرہن کی حقیقت اور اعمال سے متعلق شریعت کی تعلیمات ماقبل میں بیان ہوچکیں، ان کے علاوہ عوام میں رائج توہمات کا قرآن وسنت سے کوئی ثبوت نہیں، اس حوالے سے جامعہ اشرف المدارس کراچی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
’’سورج اور چاند گرہن کے موقع پر عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ حاملہ عورت اگر کمرہ سے باہر نکل جائے تو اس کے حمل کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے یا اگر کوئی شخص اس حالت میں سورج کی طرف دیکھے تو اس کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے یا بالکل چلی جاتی ہے، ایسی کوئی بات کی شرعی دلیل سے ثابت نہیں اور ایسا اعتقاد رکھنا بھی درست نہیں، البتہ اس معاملہ کا تعلق چونکہ جسمانی صحت سے ہے اس لیے سورج گرہن کے مؤثر ہونے کا عقیدہ رکھے بغیر اگر کوئی احتیاط کرے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں، اسی طرح سورج گرہن کے موقع پر تجربہ یا تحقیق سے کسی اور امر کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے تو شرعًا کوئی عقیدہ رکھے بغیر اس سے احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (فتویٰ نمبر: 148\ 28، مؤرخہ: 26 ربیع الثانی 1440ھ)

📿 *سورج گرہن سے متعلق بنیادی مسائل:*
1⃣ سورج گرہن کے وقت دو رکعات نماز ادا کرنا سنت ہے جس کا وہی طریقہ ہے جو عام دو رکعات نفل نماز کا ہے، اس لیے ہر مسلمان مرد اور عورت کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کسی کو نماز کی ادائیگی کا موقع نہ ملے تو اسےدعاؤں، استغفار اور ذکر وتسبیحات میں مشغول رہنا چاہیے۔ (رد المحتار)
2️⃣ نمازِ کسوف باجماعت ادا کرنا سنت ہے، اس لیے مرد حضرات مساجد، عیدگاہ یا کھلے میدان میں باجماعت نماز کرنے کا اہتمام کریں، البتہ اگر کہیں جماعت کا انتظام نہ ہو تو انفرادی طور پر نمازِ کسوف ادا کرلی جائے۔ البتہ خواتین کو یہ نماز گھروں میں انفرادی طور پر ہی ادا کرنی چاہیے، جو خواتین حیض ونفاس کی وجہ سے نماز ادا نہیں کرسکتیں تو وہ دعاؤں، استغفار اور ذکر وتسبیحات میں مشغول رہیں۔
3⃣ نمازِ کسوف کے لیے اَذان واقامت سنت سے ثابت نہیں، اس لیے یہ نماز اذان واقامت کے بغیر ادا کی جائے گی، البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مناسب الفاظ میں اعلان کرنے میں حرج نہیں۔ (رد المحتار) جیسا کہ حدیث میں ’’اَلصَّلَاةُ جَامِعَةٌ‘‘ کے الفاظ مذکور ہیں، ملاحظہ فرمائیں سنن ابی داود:
1192- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ أَنَّهُ سَأَلَ الزُّهْرِىَّ فَقَالَ الزُّهْرِىُّ: أَخْبَرَنِى عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ رَجُلًا فَنَادَى أَنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ.
4⃣ نمازِ کسوف صرف انھی اوقات میں ادا کرنا جائز ہے جن میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے، اس لیے یہ نماز مکروہ اوقات میں ادا کرنا جائز نہیں۔ (رد المحتار)
5️⃣ نمازِ کسوف طویل ادا کرنی چاہیے، جس میں قیام، رکوع،  سجدے دعائیں، تسبیحات واَذکار وغیرہ طویل ہونے چاہیے۔ (رد المحتار)
☀ سنن ابی داود:
1189- عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ -وَسَاقَ الْحَدِيثَ- ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ.
1196- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَلَمْ يَكَدْ يَرْكَعُ ثُمَّ رَكَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ وَفَعَلَ فِى الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ نَفَخَ فِى آخِرِ سُجُودِهِ فَقَالَ: «أُفْ أُفْ»، ثُمَّ قَالَ: «رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِى أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ؟ أَلَمْ تَعِدْنِى أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ»، فَفَرَغَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ صَلَاتِهِ وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
6️⃣ نمازِ کسوف ادا کرنے کے بعد سورج گرہن ختم ہونے تک دعاؤں، توبہ واستغفار اور ذکر وتسبیحات میں مشغول رہنا چاہیے۔ ایسے میں اگر امام اور مقتدی مل کر دعا کرلیں اور مقتدی آمین کہتے جائیں تو یہ بھی درست ہے۔ (رد المحتار)
7️⃣ نمازِ کسوف میں قرأت آہستہ آواز سے کہی جائے گی یا بلند آواز سے؛ تو روایات سے دونوں طریقے ثابت ہیں، اس لیے دونوں ہی درست ہیں، البتہ چوں کہ یہ نماز طویل ہوتی ہے اس لیے اگر لوگوں کی نشاط اور توجہ برقرار رکھنے کے لیے آواز سے قرأت کرلی جائے تو بہتر ہے۔
▪ *اس حوالے سے جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:*
’’نمازِ کسوف میں امام قرأت آہستہ آواز سے کرے گا یا جہری قرأت کرے گا؛ اس میں ائمہ کرام کے درمیان اختلاف ہے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس میں قرأت سرّی ہے جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے ایک قول کے مطابق اس میں قرأت جہر ی ہے، اور کتب احادیث میں دونوں قول کے مطابق روایات ملتی ہیں، اس لیے دونوں طرح قرأت کرنا جائز ہے اور ہر طرح قرأت کرنے سے نماز درست ہو جائے گی، البتہ ابن عربی رحمہ اللہ نے جہرًا  قرأت کو اولیٰ قرار دیا ہے اور صاحب ِاعلاءالسنن علامہ ظفراحمد عثمانی کار جحان بھی اسی طرف معلوم ہو تا ہے۔‘‘  (فتویٰ نمبر: ۲۰۰/ ۳۸)
☀ سنن ابی داود:
-  💞💞💞💞💞

Friday, June 19, 2020

❤ناپاکی سے پاکی تک کا سفر❤


ﻧﺎﭘﺎﮐﯽ ﺳﮯ ﭘﺎکی تک کا سفر

ﻣﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﻣﻮﮈ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﺎ ﺍﺩﺏ ﮬﻮ ﮐﺮ ﮔﻮﯾﺎ ﮬﻮﺍ ! ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﺮﻕِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ,ﮐﯿﺎ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮩﺘﮯ ﮬﯿﮟ? ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﭼﺸﻤﮧ ﭘﮭﻮﭨﺘﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮬﮯ ؟؟؟
ﻣﺮﺷــﺪ ﻧﮯ ﮔﮩﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ,ﺟﺐ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮔﺰﺭ ﮔﺊ ﺗﻮ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﻮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮬﮯ،، ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﮈﺭﺗﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺑﻮﻻ, ﺣﻀﺮﺕ ﺟﯽ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﺖ ﮬﻮﺋﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮐﺎ ﻃﻠﺒﮕﺎﺭ ﮬﻮﮞ ! ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ " 'ﮬـُـــــــﻮﮞ" ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ, ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺍ ﻣﮕﺮ ﻓﮑﺮﻣﻨﺪ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﻮﮞ ،،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ 12 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﻮﯾﻞ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﭘﮍ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ , ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﯾﮧ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﻃﻮﯾﻞ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﮔﺎ ﺑﮭﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ, ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺟﻞ ﺁﮔﺊ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺤﻨﺖ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ـ
ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮧ ﻋﺮﻕِ ﺣﯿﺎﺕ ﯾﺎ ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ , ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻁ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ, ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ! ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺮﺷﺪ ﺗﻮ ﺁﺏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮐﮯﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ,ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺑﻮ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮬﮯ ﻋﺮﻕِ ﺣﯿﺎﺕ !! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ , ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮬﮯ،، ﺧﯿﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ, ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﻮﺩﺍ ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﮬﻮﮞ , ﺍﺱ ﭘﻮﺩﮮ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﺎ ﻋﺮﻕ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺷﯿﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮﻧﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺷﯿﺸﯽ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﺎ ﮬﮯ, ﯾﮧ ﻋﺮﻕ ﮬﯽ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﻕِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ !! ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮﮦ ﺭﺱ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮬﮯ , ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺷﯿﺸﯽ ﻓﻮﺭﺍً ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﮌ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ, ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭘﻮﺩﺍ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﮬﮯ ! ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﯽ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ !
ﻣﺮﯾﺪ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﺟﻮﺵ ﺗﮭﺎ, ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﮧ ﺑﺲ ﺣﻞ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﺎ , ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ, ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﻮﺩﮮ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﮐﮭﻢ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﭘﻮﺩﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮﮦ , ﺍﻟﻐﺮﺽ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﺑﻮﺗﻞ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ, ﺟﺲ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻮﺗﻞ ﺑﮭﺮﯼ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﺊ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻧﻮﯾﺪ ﺗﮭﺎ, ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻟﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﺘﺎ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺮﺷﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﮬﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﺿﺎﺋﻊ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﭼﺸﻤﮧ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﻮ ﮬﯽ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ !! ﻭﮦ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ ﮐﺒﮭﯽ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭﮌﺗﺎ, ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﮯ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ﺗﮭﺎ, ﻣﺮﺷﺪ ﮐﮯ ﮈﯾﺮﮮ ﭘﮧ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﯿﺘﺎﺏ ﮬﻮ ﮐﺮ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮬﯽ ﭼﻼﯾﺎ , ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ,ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ, ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﭙﺴﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺭﮬﺎ, ﻣﯿﮟ ﺑﻮﺗﻞ ﺑﮭﺮ ﻻﯾﺎ ﮬﻮﮞ , ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﻣﺮﺷﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭩﮭﯿﺎ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ , ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﺩﮬﺮﯼ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ !!
ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﯾﺪ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺩﻭﮌ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺑﮯ ﺍﺣﺘﯿﺎﻃﯽ ﺍﺳﮯ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﭘﮍﯼ, ﭨﯿﮍﮬﮯ ﻣﯿﮍﮬﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﺎ ﺳﭩﮑﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﯾﺪ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﻕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﭨﮭﺎﮦ ﺳﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﭘﺮ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﺍ ﭼﻮﺭﺍ ﮬﻮ ﮔﺊ, ﻋﺮﻕ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﻮ ﺟﮭﭧ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮕﻞ ﮔﺊ ـ
ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻞ ﮔﺊ , ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﻨﺖ ,ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻣﺸﻘﺖ ﻣﭩﯽ ﺑﻦ ﮔﺊ, ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺎﮦ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ, ﻣﺮﺷﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺷﯿﺸﯽ ﻻﯾﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺳﺴﮑﺘﮯ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ , ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ !! ﺍﺏ ﻣﺮﯾﺪ ﺭﻭ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺷﺪ ﮬﻨﺲ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ, ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮬﻮ ﮔﺊ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ ? ﻣﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﺗﻌﺠﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ !! ﻣﺮﺷﺪ ﺍﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ , ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺷﯿﺸﯽ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯾﺪ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﮮ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ, ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮔﯿﻼ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮬﮯ " ﻋﺮﻕِِ ﺣﯿﺎﺕ " ﯾﺎ " ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ " ﯾﺎ ﻣﻘﺼﺪِ ﺣﯿﺎﺕ !! ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺑﮉﺑﺎﺗﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﮬﯿﮟ ﺁﺏِ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﭼﺸﻤﮯ !!
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ! ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ , ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭼﮭﭙﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﮬﮯ, ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺯﺍﺭﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺭﻭﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ, ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻤﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﭩﮑﮯ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯﮔﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﻨﺘﯿﮟ ﺿﺎﺋﻊ ﮬﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺑﻠﺒﻼﺗﮯ ﮬﯿﮟ , ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺒﺎﺋﻊ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ـ
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﮬﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺷﯿﺸﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮٹٹی, ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﭩﮑﮯ ﮬﺮ ﺩﻡ ﺑﮭﺮﮮ ﺭﮬﺘﮯ ﮬﯿﮟ, ﻭﮬﺎﮞ ﻣﭩﮑﮯ ﭨﻮﭨﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ , ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮬﮯ, ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ ! ﮬﻤﯿﮟﺍﺳﯽ ﻣﻘﺼﺪ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ
💞💞💞💞💞

Thursday, June 18, 2020

❤سکون مطلوب نہیں ❤


سکون مطلوب نہیں
۔"""""""""""""""""""

ایک کہاوت ہے کہ جہاز بندر گاه میں زیاده محفوظ رہتے ہیں۔ مگر جہاز اس لئے نہیں بنائے گئے کہ وه بندر گاه میں کهڑے رہیں :
Ships are safer in the harbour , but they are not meant for that purpose.

انسان اگر اپنے ٹهکانے پر بیٹها رہے، وه نہ سفر کرے، نہ کوئی کام شروع کرے، نہ کسی سے معاملہ کرے، تو ایسا آدمی بظاہر محفوظ اور پر سکون ہو گا، مگر انسان کو پیدا کرنے والے نے اس کو اس لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وه پر سکون طور پر ایک جگہ رہے اور پهر وه قبر میں چلا جائے۔

انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وه کام کرے، وه دنیا میں ایک زندگی کی تعمیر کرے، اس مقصد کے لئے اس کو دنیا کے ہنگاموں میں داخل ہونا پڑے گا۔ وه ہارنے اور جیتنے کے تجربات اٹهائے گا۔ اس کو کبهی نقصان ہو گا اور کبهی فائده۔ اس قسم کے واقعات کا پیش آنا عین فطری ہے، اور ایسے واقعات و حوادث کا اندیشہ ہونے کے باوجود انسان کے لئے یہ مطلوب ہے کہ وه زندگی کے سمندر میں داخل ہو اور اپنی جدوجہد میں کمی نہ کرے۔

مزید یہ کہ پر سکوں زندگی کوئی مطلوب زندگی نہیں، کیونکہ جو آدمی مستقل طور پر سکون کی حالت میں ہو اس کا ارتقاء رک جائے گا۔ ایسے آدمی کے امکانات بیدار نہیں ہوں گے۔ ایسے آدمی کی فطرت میں چهپے ہوئے خزانے باہر آنے کا موقع نہ پا سکیں گے۔

اس کے برعکس ایک آدمی جب زندگی کے طوفان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی چهپی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹهتی ہیں۔ وه معمولی انسان سے اوپر اٹھ کر غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔ پہلے اگر وه چهوٹا سا بیج تها تو اب وه ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے ۔

زندگی جدوجہد کا نام ہے، زندگی یہ ہے کہ آدمی مقابلہ کر کے آگے بڑهے۔ زندگی وه ہے جو سیلاب بن جائے نہ کہ وه جو ساحل پر ٹهہری رہے ۔
💞💞💞💞💞

Wednesday, June 17, 2020

❤❤ٹوٹا ہوا گلاس ❤❤


۔           👈  *ٹوٹا ہوا گلاس*  👉



" یہ ایک سعودی طالبعلم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے جو حصول تعلیم کے لیے برطانیہ میں مقیم تھا 

وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے ایک ایسی انگریز فیملی کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔ 

ایک دن وہ دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیے آپ کے پاس چھوڑ دیں ؟ میرا باہر جانے کا کوئ ارادہ نہیں تھا اس لیے میں نے حامی بھر لی وہ بچہ مجھ سے کافی مانوس تھا کچھ دیر کھیلنے کے بعد وہ مجھ سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد مجھے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئ اور ساتھ ہی بچے کی چیخ سنائ دی میں جلدی سے کچن میں گیا اور دیکھا کہ شیشے کے جس گلاس میں بچہ پانی پی رہا تھا وہ اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ چکا تھا اور بچہ ڈر کر اپنی جگہ سہما کھڑا تھا میں نے بچے کو تسلی دی اور کہا کہ تم پریشان نہ ہو اور امی واپس آئیں تو ان سے کہنا کہ گلاس انکل سے ٹوٹ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ اگلے دن ایک گلاس لا کر کچن میں رکھ دوں گا۔ 

یہ ایک معمولی واقعہ تھا اور میرے خیال میں پریشانی والی کوئ بات نہیں تھی، جلد ہی وہ دونوں میاں بیوی واپس آگئے اور میں نے بچے کو ان کے حوالے کر دیا وہ عورت جب کچن میں گئ اور گلاس ٹوٹا ہوا پایا تو بچے سے پوچھا بچے نے اس کو وہی بتایا جو کہ میں اس کو سمجھا چکا تھا، 

اسی شام کو وہ بچہ میرے پاس بہت افسردہ حالت میں آیا اور مجھے کہا کہ انکل میں نے امی کو سچ بتا دیا ہے کہ وہ گلاس آپ نے نہیں بلکہ میں نے توڑا ہے ،،،،،

اگلی صبح میں یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے اس بچے کی ماں کھڑی تھی اس نے مجھے صبح بخیر کہا اور نہایت شائستگی سے میرا نام لے کر کہا کہ ہم آپ کو ایک نفیس اور شریف آدمی سمجھتے ہیں مگر آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دے کر اپنا وقار خراب کر لیا ہے ہم نے آج تک کسی بھی معمولی یا بڑی بات پر اپنے بچے سے جھوٹ نہیں بولا نہ کبھی اس کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی ہے لہذا ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے برائے مہربانی آپ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے لیے کسی دوسری رہائش کا بندوبست کر لیجیے۔


میرے پیارے مسلمان بھائیو آئیے ہم ایک لمحہ کے توقف کے ساتھ اپنا ہلکا سا احتساب کریں کہ ہم میں سے تقریباً ہر بندہ صبح سے لے کر شام تک معمولی باتوں پر کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہے اور کتنی دفعہ ہمارے بچے جھوٹ بولتے ہیں جس پر ہمیں کوئ ملال نہیں ہوتا۔
الله ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ہر حال میں سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

*︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗*

Tuesday, June 16, 2020

❤داڑھی کٹوانے کے مفاسد ❤


ڈاڑھی کٹوانے کے مفاسد 
داڑھی منڈوانے کی اکتالیس خرابیاں اور برائیاں ہیں :

(1) داڑھی منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔

(2) داڑھی منڈانے میں ہندووٴں کے مذہب کے ساتھ مشابہت ہے،
کیوں کہ ہندؤوں کے مذہب میں داڑھی منڈانا فرض ہے، جیسا کہ مولانا عبید اللہ نومسلم ولد کوٹے مل نے اپنی کتاب ”تحفة الہند“ میں ہندووٴں کا عقیدہ بیان فرمایا ہے۔

(3) داڑھی منڈانے میں قومِ نصاریٰ کی مشابہت ہے۔

(4) داڑھی منڈانے میں قومِ لوط کے غنڈوں کے ساتھ مشابہت ہے،
👈🏻 داڑھی منڈانے کی عادت اسی قوم سے شروع ہوئی ، اس سے پہلے مسلم وغیر مسلم سب کے سب لوگ داڑھیاں رکھتے تھے۔

(5) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت ہے۔

(6) تمام اولیاء اللہ کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں تمام اولیاء اللہ کی عملاً مخالفت ہے۔

(7) تمام صالحین وشہداء کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں ان تمام شہداء وصالحین کی عملاً مخالفت ہے۔

(8) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے:

”احفوا الشوارب، واعفوا اللحیٰ“․ یعنی: مونچھیں چھوٹی کرو اور داڑھیاں بڑھاوٴ۔ اب جب داڑھی منڈائی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور نافرمانی ہوئی
👈🏻 اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول﴾․ یعنی: اللہ تعالی کی مانو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مانو۔ اور فرمایا ہے:﴿ومن یعص اللہ ورسولہ، فإن لہ نار جھنم﴾ یعنی: جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا، تو اس کی خاطر جہنم کی آگ تیار ہے۔

(9) داڑھی منڈانے والے داڑھی کے بالوں کو عموماًیونہی پھینک دیتے ہیں، حالاں کہ انسان سے جد ا شدہ اعضاء، بال ، ناخن وغیرہ کو دفن کرنے کا حکم ہے، تو اس طرح حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ انسانی شرافت کی بھی توہین ہے۔

(10) ان بالوں کی (جو سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم تھے) اب توہین ہونے لگی ہے کہ پاوٴں کے نیچے آرہے ہیں اور اُڑ کر گندی جگہوں میں گر رہے ہیں۔

(11) داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سنتوں سے محروم رہتا ہے، مثلاً: وضو کرتے وقت داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(12) داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(13) داڑھی سفید ہو تو اس کو مہندی لگانا مستحب ہے، داڑھی منڈانے والا اس سے بھی محروم رہا۔

(14) داڑھی منڈانے والا فاسق ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے کہ لوگوں ! قیامت کے دن گواہ رہنا کہ میں فاسق ہوں۔

(15) داڑھی منڈا کر اپنے فسق، یعنی: اپنے گناہ کا اظہار کرنا بھی گناہ ہے۔

(16) اگر کسی نائی کو کہے کہ آکر میری داڑھی مونڈ، تو اس کو بھی گویا فسق کے کام کا حکم دیا۔

(17) اور اس حرام کام پر اس نائی کو اجرت دی اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا، 
👈🏻حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ﴾ یعنی: ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ضرور تعاون کرو، مگر ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔

(18) اس کو حرام مال کھانے کی ترغیب دی کہ حرام کما اور حرام کھا۔

(19) تبذیر کی، یعنی: اپنا پیسہ فضول کام میں لگا کر شیطان کا بھائی بن گیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ولا تبذر تبذیرا إن المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا﴾یعنی: فضول خرچی مت کرو، کیوں کہ فضو ل خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔
👈🏻 اور داڑھی منڈانے والے نے بھی اپنے رب کی دی ہوئی نعمت؛ مال کی قدر نہ کرتے ہوئے حرام کام میں ضائع کر دیا، تو شیطان کا بھائی بنا۔

(20) داڑھی منڈانے والے نے جس طرح اپنا مال ضائع کیا، ایسے ہی اس نے داڑھی منڈانے پر جتنا وقت لگایا ہے، اتنا وقت اس نے حرام کام میں ضائع کیا۔

(21) نیکی کے کام سے اتنے وقت میں محروم رہا۔

(22) جس طرح اپنا وقت برباد کیا اسی طرح نائی کا وقت بھی حرام کام میں ضائع کر دیا۔

(23) اور نیکی کے کام سے نائی کو بھی روک دیا۔

(24) داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کر دیا اور ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾ کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، یہ گناہ الگ اپنے سر چڑھایا۔

(25) شیطان کو خوش کیا، یہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔

(26) داڑھی منڈا کے شیشہ دیکھتا ہے اور قبیح شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے، یہ بھی گناہ ہے۔

(27) داڑھی منڈانے والے عموماً داڑھی والوں کو برا سمجھتے ہیں۔

(28) داڑھی والوں کے بارے میں کہانیاں اور کہاوتیں بناتے ہیں۔

(29) بکرے اور چھیلے اور سکھوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور مختلف پیراوٴں میں اشارے کرتے ہیں۔

(30) سنتِ رسول کا استہزا لازم آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تمام پیغمبروں، اولیاء، صوفیاء اور نیک لوگوں کی توہین اور استہزا لازم آتا ہے۔

(31) داڑھی منڈانے والے زبان سے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم داڑھی والوں کی طرح داڑھی کی آڑ میں شکار نہیں کرتے۔

(32) غیر قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں اور داڑھی والوں پر پھبتیاں اڑاتی ہیں۔

(33) داڑھی منڈانے سے شرم وحیا نہیں رہتا اور داڑھی منڈانے والا ہر گناہ بغیر جھجک کے کر گذرتا ہے اور داڑھی والا کچھ تو اپنی داڑھی کی لاج رکھے گا کہ اگر کوئی غلط کام اس سے ہو جائے تو طعنہ دینے والے اس کو طعنہ دیں گے اور شرمندہ ہو گا۔

(34) داڑھی منڈانے کے بارے میں کسی نے سوال کیا تو کہنا پڑتا ہے کہ ”فلاں! جو داڑھی منڈاتا ہے، وہ …؟“ تو غیبت کا ارتکاب ہوا اور اس غیبت کا سبب داڑھی منڈانے والاہو جائے گا۔

(35) داڑھی منڈوانے والے کی شہادت ناقابلِ اعتبار ہے، جیسا کہ تمام فقہاء نے لکھا ہے۔

(36) نائی نے کسی کی داڑھی مونڈی اور اتفاق سے ایسا ہو گیا کہ جس کی داڑھی مونڈی تھی ، اس کی داڑھی اگنے سے رُک گئی، یعنی: وہ آدمی کھوجا ہو گیا، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ اس نائی پر دیت لازم آئے گی، یعنی: اس کو جس کی داڑھی نہیں اُگی، سو اونٹ دینے (نائی کے ذمے)لازم ہوں گے۔

(37) داڑھی منڈانے والا اذان واقامت سے محروم ہو گیا، اس کی اذان واقامت مکروہ ہے۔

(38) داڑھی منڈانے والا امام نہیں بن سکتا، اس کی امامت مکروہ ہے۔

(39) داڑھی منڈانے والا نہ بغیر کراہت کے جمعہ پڑھ سکتا ہے، نہ عید پڑھ سکتا ہے، کیوں کہ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور فقہاء ِ کرام نے قاعدہ لکھا ہے: ”کل صلاة أدیت مع الکراھة وجبت إعادتھا“ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی جائے، اس کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے، تا کہ بغیر کراہت کے نماز صحیح ہو سکے اور عیدین وجمعہ کی نماز کا اعادہ نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ جُرم اس قدر بڑا ہے کہ اس کا تدارک مشکل ہے۔

(40)داڑھی منڈوانے والے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعاء 
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدنی دور میں مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے، ان خطوط میں ایک خط ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھی تھا، اس کے پاس جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، تو اس بدبخت نے نہایت توہین آمیز انداز میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اپنے گورنر ”باذان “کو (جو یمن کا حاکم تھا) لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس خط لکھنے والے شخص کو گرفتار کر کے لے کر آئیں، چناں چہ یمن کے حاکم نے تعمیلِ ارشاد میں دو آدمی مدینہ کی طرف بھیجے، وہ دونوں شخص جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس حال میں کہ ( ان کی ہیئت یہ تھی کہ)انہوں نے اپنی داڑھیوں کو منڈایا ہوا تھا اور اپنی مونچھوں کولمبا کیا ہوا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے کو (بھی) ناپسند فرمایااور (سخت ناگواری سے) فرمایا: 
👈🏻👈🏻👈🏻تمہارے لیے ہلاکت (اور بربادی) ہو، تم کو یہ حلیہ اپنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس (حلیہ اپنانے) کا حکم دیا ہے، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے اس جواب کے بعد ارشاد فرمایا : لیکن میرے رب نے مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔

قال محمد بن إسحاق: وبعث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عبد اللہ بن حذافة بن قیس بن عدي بن سعد بن سہم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز ملک فارس وکتب معہ: …،فلما قریٴ کتاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شققہ، وقال: یکتب إليَّ بھٰذا الکتاب وھو عبدي؟…ثم کتب کسریٰ إلیٰ باذان وھو علیٰ الیمن: إبعث إلیٰ ھٰذا الرجل الذي بالحجاز من عندک رجلین جلدین، فلیأتیاني بہ … فخرجا حتیٰ قدما إلیٰ المدینة علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، … وقد دخلا علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وقد حلقا لحاھما، وأعفیا شواربھما، فکرہ النظر إلیھما، وقال: 
👈🏻👈🏻👈🏻ویلکما، مَن أمرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ- فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي، ثم قال لھما: إرجعا حتیٰ تأتیاني غداً، وأتیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الخبرُ أن اللہ عزوجل قد سلط علیٰ کسریٰ ابنَہ شیرویہ، فقتلہ في شھر کذا وکذا، في لیلة کذا وکذا، لعدة ما مضی من اللیل…قال: نعم! أخبراہ ذلک عني، وقولا لہ: إن دیني وسلطاني سیبلغ ما بلغ ملک کسریٰ، وینتھي إلیٰ منتھیٰ الخفِّ والحافر، وقولا لہ: إنک إن أسلمت أعطیتک ما تحت یدیک، وملّکتک علی قومک من الأبناء……إلخ“․
(دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبھاني)

(41)داڑھی منڈوانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری
ایک فارسی شاعر کا قصہ
مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہو گیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے)داڑھی کا صفایا کر رہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہاکہ:

”آغا! ریش می تراشی؟“ (جناب ! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں ؟!)

مرزا نے جواب دیا:
” بلے ! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم“․ (ہاں ! ہاں! اپنے ہیبال تراش رہا ہوں ، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔)

گویا : ”دل بدست آورکہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔

ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا:
”بلے دل رسول می تراشی“․ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔)

یہ سن کر مرزا کو وجد آ گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا:
        جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
         مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی
(آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)“۔

پس اگرمحبوبِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھائیں۔
فقط واللہ الھادی الی سواء السبیلڈاڑھی کٹوانے کے مفاسد 
داڑھی منڈوانے کی اکتالیس خرابیاں اور برائیاں ہیں :

(1) داڑھی منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔

(2) داڑھی منڈانے میں ہندووٴں کے مذہب کے ساتھ مشابہت ہے،
کیوں کہ ہندؤوں کے مذہب میں داڑھی منڈانا فرض ہے، جیسا کہ مولانا عبید اللہ نومسلم ولد کوٹے مل نے اپنی کتاب ”تحفة الہند“ میں ہندووٴں کا عقیدہ بیان فرمایا ہے۔

(3) داڑھی منڈانے میں قومِ نصاریٰ کی مشابہت ہے۔

(4) داڑھی منڈانے میں قومِ لوط کے غنڈوں کے ساتھ مشابہت ہے،
👈🏻 داڑھی منڈانے کی عادت اسی قوم سے شروع ہوئی ، اس سے پہلے مسلم وغیر مسلم سب کے سب لوگ داڑھیاں رکھتے تھے۔

(5) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت ہے۔

(6) تمام اولیاء اللہ کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں تمام اولیاء اللہ کی عملاً مخالفت ہے۔

(7) تمام صالحین وشہداء کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں ان تمام شہداء وصالحین کی عملاً مخالفت ہے۔

(8) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے:

”احفوا الشوارب، واعفوا اللحیٰ“․ یعنی: مونچھیں چھوٹی کرو اور داڑھیاں بڑھاوٴ۔ اب جب داڑھی منڈائی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور نافرمانی ہوئی
👈🏻 اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول﴾․ یعنی: اللہ تعالی کی مانو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مانو۔ اور فرمایا ہے:﴿ومن یعص اللہ ورسولہ، فإن لہ نار جھنم﴾ یعنی: جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا، تو اس کی خاطر جہنم کی آگ تیار ہے۔

(9) داڑھی منڈانے والے داڑھی کے بالوں کو عموماًیونہی پھینک دیتے ہیں، حالاں کہ انسان سے جد ا شدہ اعضاء، بال ، ناخن وغیرہ کو دفن کرنے کا حکم ہے، تو اس طرح حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ انسانی شرافت کی بھی توہین ہے۔

(10) ان بالوں کی (جو سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم تھے) اب توہین ہونے لگی ہے کہ پاوٴں کے نیچے آرہے ہیں اور اُڑ کر گندی جگہوں میں گر رہے ہیں۔

(11) داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سنتوں سے محروم رہتا ہے، مثلاً: وضو کرتے وقت داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(12) داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(13) داڑھی سفید ہو تو اس کو مہندی لگانا مستحب ہے، داڑھی منڈانے والا اس سے بھی محروم رہا۔

(14) داڑھی منڈانے والا فاسق ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے کہ لوگوں ! قیامت کے دن گواہ رہنا کہ میں فاسق ہوں۔

(15) داڑھی منڈا کر اپنے فسق، یعنی: اپنے گناہ کا اظہار کرنا بھی گناہ ہے۔

(16) اگر کسی نائی کو کہے کہ آکر میری داڑھی مونڈ، تو اس کو بھی گویا فسق کے کام کا حکم دیا۔

(17) اور اس حرام کام پر اس نائی کو اجرت دی اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا، 
👈🏻حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ﴾ یعنی: ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ضرور تعاون کرو، مگر ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔

(18) اس کو حرام مال کھانے کی ترغیب دی کہ حرام کما اور حرام کھا۔

(19) تبذیر کی، یعنی: اپنا پیسہ فضول کام میں لگا کر شیطان کا بھائی بن گیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ولا تبذر تبذیرا إن المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا﴾یعنی: فضول خرچی مت کرو، کیوں کہ فضو ل خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔
👈🏻 اور داڑھی منڈانے والے نے بھی اپنے رب کی دی ہوئی نعمت؛ مال کی قدر نہ کرتے ہوئے حرام کام میں ضائع کر دیا، تو شیطان کا بھائی بنا۔

(20) داڑھی منڈانے والے نے جس طرح اپنا مال ضائع کیا، ایسے ہی اس نے داڑھی منڈانے پر جتنا وقت لگایا ہے، اتنا وقت اس نے حرام کام میں ضائع کیا۔

(21) نیکی کے کام سے اتنے وقت میں محروم رہا۔

(22) جس طرح اپنا وقت برباد کیا اسی طرح نائی کا وقت بھی حرام کام میں ضائع کر دیا۔

(23) اور نیکی کے کام سے نائی کو بھی روک دیا۔

(24) داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کر دیا اور ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾ کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، یہ گناہ الگ اپنے سر چڑھایا۔

(25) شیطان کو خوش کیا، یہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔

(26) داڑھی منڈا کے شیشہ دیکھتا ہے اور قبیح شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے، یہ بھی گناہ ہے۔

(27) داڑھی منڈانے والے عموماً داڑھی والوں کو برا سمجھتے ہیں۔

(28) داڑھی والوں کے بارے میں کہانیاں اور کہاوتیں بناتے ہیں۔

(29) بکرے اور چھیلے اور سکھوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور مختلف پیراوٴں میں اشارے کرتے ہیں۔

(30) سنتِ رسول کا استہزا لازم آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تمام پیغمبروں، اولیاء، صوفیاء اور نیک لوگوں کی توہین اور استہزا لازم آتا ہے۔

(31) داڑھی منڈانے والے زبان سے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم داڑھی والوں کی طرح داڑھی کی آڑ میں شکار نہیں کرتے۔

(32) غیر قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں اور داڑھی والوں پر پھبتیاں اڑاتی ہیں۔

(33) داڑھی منڈانے سے شرم وحیا نہیں رہتا اور داڑھی منڈانے والا ہر گناہ بغیر جھجک کے کر گذرتا ہے اور داڑھی والا کچھ تو اپنی داڑھی کی لاج رکھے گا کہ اگر کوئی غلط کام اس سے ہو جائے تو طعنہ دینے والے اس کو طعنہ دیں گے اور شرمندہ ہو گا۔

(34) داڑھی منڈانے کے بارے میں کسی نے سوال کیا تو کہنا پڑتا ہے کہ ”فلاں! جو داڑھی منڈاتا ہے، وہ …؟“ تو غیبت کا ارتکاب ہوا اور اس غیبت کا سبب داڑھی منڈانے والاہو جائے گا۔

(35) داڑھی منڈوانے والے کی شہادت ناقابلِ اعتبار ہے، جیسا کہ تمام فقہاء نے لکھا ہے۔

(36) نائی نے کسی کی داڑھی مونڈی اور اتفاق سے ایسا ہو گیا کہ جس کی داڑھی مونڈی تھی ، اس کی داڑھی اگنے سے رُک گئی، یعنی: وہ آدمی کھوجا ہو گیا، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ اس نائی پر دیت لازم آئے گی، یعنی: اس کو جس کی داڑھی نہیں اُگی، سو اونٹ دینے (نائی کے ذمے)لازم ہوں گے۔

(37) داڑھی منڈانے والا اذان واقامت سے محروم ہو گیا، اس کی اذان واقامت مکروہ ہے۔

(38) داڑھی منڈانے والا امام نہیں بن سکتا، اس کی امامت مکروہ ہے۔

(39) داڑھی منڈانے والا نہ بغیر کراہت کے جمعہ پڑھ سکتا ہے، نہ عید پڑھ سکتا ہے، کیوں کہ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور فقہاء ِ کرام نے قاعدہ لکھا ہے: ”کل صلاة أدیت مع الکراھة وجبت إعادتھا“ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی جائے، اس کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے، تا کہ بغیر کراہت کے نماز صحیح ہو سکے اور عیدین وجمعہ کی نماز کا اعادہ نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ جُرم اس قدر بڑا ہے کہ اس کا تدارک مشکل ہے۔

(40)داڑھی منڈوانے والے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعاء 
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدنی دور میں مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے، ان خطوط میں ایک خط ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھی تھا، اس کے پاس جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، تو اس بدبخت نے نہایت توہین آمیز انداز میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اپنے گورنر ”باذان “کو (جو یمن کا حاکم تھا) لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس خط لکھنے والے شخص کو گرفتار کر کے لے کر آئیں، چناں چہ یمن کے حاکم نے تعمیلِ ارشاد میں دو آدمی مدینہ کی طرف بھیجے، وہ دونوں شخص جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس حال میں کہ ( ان کی ہیئت یہ تھی کہ)انہوں نے اپنی داڑھیوں کو منڈایا ہوا تھا اور اپنی مونچھوں کولمبا کیا ہوا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے کو (بھی) ناپسند فرمایااور (سخت ناگواری سے) فرمایا: 
👈🏻👈🏻👈🏻تمہارے لیے ہلاکت (اور بربادی) ہو، تم کو یہ حلیہ اپنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس (حلیہ اپنانے) کا حکم دیا ہے، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے اس جواب کے بعد ارشاد فرمایا : لیکن میرے رب نے مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔

قال محمد بن إسحاق: وبعث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عبد اللہ بن حذافة بن قیس بن عدي بن سعد بن سہم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز ملک فارس وکتب معہ: …،فلما قریٴ کتاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شققہ، وقال: یکتب إليَّ بھٰذا الکتاب وھو عبدي؟…ثم کتب کسریٰ إلیٰ باذان وھو علیٰ الیمن: إبعث إلیٰ ھٰذا الرجل الذي بالحجاز من عندک رجلین جلدین، فلیأتیاني بہ … فخرجا حتیٰ قدما إلیٰ المدینة علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، … وقد دخلا علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وقد حلقا لحاھما، وأعفیا شواربھما، فکرہ النظر إلیھما، وقال: 
👈🏻👈🏻👈🏻ویلکما، مَن أمرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ- فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي، ثم قال لھما: إرجعا حتیٰ تأتیاني غداً، وأتیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الخبرُ أن اللہ عزوجل قد سلط علیٰ کسریٰ ابنَہ شیرویہ، فقتلہ في شھر کذا وکذا، في لیلة کذا وکذا، لعدة ما مضی من اللیل…قال: نعم! أخبراہ ذلک عني، وقولا لہ: إن دیني وسلطاني سیبلغ ما بلغ ملک کسریٰ، وینتھي إلیٰ منتھیٰ الخفِّ والحافر، وقولا لہ: إنک إن أسلمت أعطیتک ما تحت یدیک، وملّکتک علی قومک من الأبناء……إلخ“․
(دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبھاني)

(41)داڑھی منڈوانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری
ایک فارسی شاعر کا قصہ
مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہو گیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے)داڑھی کا صفایا کر رہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہاکہ:

”آغا! ریش می تراشی؟“ (جناب ! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں ؟!)

مرزا نے جواب دیا:
” بلے ! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم“․ (ہاں ! ہاں! اپنے ہیبال تراش رہا ہوں ، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔)

گویا : ”دل بدست آورکہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔

ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا:
”بلے دل رسول می تراشی“․ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔)

یہ سن کر مرزا کو وجد آ گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا:
        جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
         مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی
(آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)“۔

پس اگرمحبوبِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھائیں۔
فقط واللہ الھادی الی سواء السبیل