Saturday, June 20, 2020

❤❤غلطی کی اصلاح ❤❤


*: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*

*

🌻 *سورج گرہن: حقیقت، اعمال اور احکام*

📿 *سورج گرہن کی حقیقت:*
فلکیاتی رو سے سورج گرہن ظاہری طور پر اس وقت  ہوتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں آجائے جس کی وجہ سے سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، جبکہ دین اسلام کی رو سے سورج گرہن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی اہم نشانیوں میں سے ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی عظمت وجلال کا اظہار فرماتے ہیں، اپنے بندوں کے دلوں کو خوف وخشیت پیدا فرماتے ہیں اور اپنے عذاب سے ڈراتے ہیں۔
ایک مؤمن کا یہی عقیدہ ہے کہ سورج اور چاند سمیت کائنات کا یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم کے تحت جاری وساری ہے، اس میں ہونے والی تبدیلیاں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہوتی ہیں، یہی حال سورج گرہن کا بھی ہے۔ اس وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بندے نماز ادا کرکے، توبہ واستغفار اور ذکر کرکے اور صدقہ دے کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں، اس کی عظمت وجلال کا اعتراف کریں، دلوں میں اس کی خشیت پیدا کریں اور عذابِ الہٰی سے پناہ مانگیں۔
───────────
───────────
🌼 *سورج گرہن کی حقیقت اور اعمال سے متعلق احادیث مبارکہ:*
متعدد احادیث مبارکہ میں سورج گرہن کی حقیقت اور اس وقت کیے جانے والے اعمال کا ذکر موجود ہے۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ حضرت عبد الله بن عمر  رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’سورج گرہن اور چاند گرہن لوگوں میں سے کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم سورج اور چاند گرہن ہوتا ہوا دیکھو تو نماز ادا کرو۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1042- حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَن ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَن النَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا.

2️⃣ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں (حضور ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کے فوت ہونے کے دن سورج گرہن ہوگیا، تو لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ:’’ حقیقت یہ ہے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے نہیں ہوتے، اس لیے جب تم گرہن ہوتا ہوا دیکھو تو تم نماز ادا کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1043- عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَن الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا اللهَ.

3⃣ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جب تم سورج اور چاند گرہن ہوتا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، تکبیرات پڑھو، نماز ادا کرو اور صدقہ کرو۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1044- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالنَّاسِ .... ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا.

4⃣ حضرت ابو بکرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت کی وجہ سے نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کے دلوں میں خوف وخشیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
☀ صحیح بخاری میں ہے:
1048- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَن الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّ اللهَ تَعَالَى يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ.

5️⃣ سنن ابی داود کی ایک روایت میں سورج گرہن کے وقت تسبیح (یعنی سبحان اللہ)، تحمید (یعنی الحمدللہ)، تہلیل (یعنی لا الٰہ الا اللہ) پڑھنا اور دعا مانگنا بھی ثابت ہے:
1197- عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَتَرَمَّى بِأَسْهُمٍ فِى حَيَاةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ إِذْ كُسِفَتِ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهُنَّ وَقُلْتُ: لأَنْظُرَنَّ مَا أُحْدِثَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فِى كُسُوفِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يُسَبِّحُ وَيُحَمِّدُ وَيُهَلِّلُ وَيَدْعُو حَتَّى حُسِرَ عَنِ الشَّمْسِ فَقَرَأَ بِسُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ.

📿 *سورج گرہن کے وقت احادیث سے ثابت ہونے والے اعمال:*
ماقبل میں مذکور احادیث مبارکہ سے سورج گرہن کے وقت متعدد اعمال ثابت ہوتے ہیں جیسے:
1⃣ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا اہتمام کرنا۔
2️⃣ سورج گرہن کی نماز ادا کرنا جس کو نمازِ کُسُوف کہتے ہیں۔
3⃣ دعاؤں کا اہتمام کرنا، توبہ واستغفار کرنا اور عذابِ خداوندی سے پناہ مانگنا۔
4⃣ ذکر وتسبیحات کا اہتمام کرنا۔
5️⃣ حسبِ وسعت صدقہ دینا۔
📿 *سورج گرہن سے متعلق تَوَہُّمات کی حقیقت:*
سورج گرہن کی حقیقت اور اعمال سے متعلق شریعت کی تعلیمات ماقبل میں بیان ہوچکیں، ان کے علاوہ عوام میں رائج توہمات کا قرآن وسنت سے کوئی ثبوت نہیں، اس حوالے سے جامعہ اشرف المدارس کراچی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
’’سورج اور چاند گرہن کے موقع پر عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ حاملہ عورت اگر کمرہ سے باہر نکل جائے تو اس کے حمل کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے یا اگر کوئی شخص اس حالت میں سورج کی طرف دیکھے تو اس کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے یا بالکل چلی جاتی ہے، ایسی کوئی بات کی شرعی دلیل سے ثابت نہیں اور ایسا اعتقاد رکھنا بھی درست نہیں، البتہ اس معاملہ کا تعلق چونکہ جسمانی صحت سے ہے اس لیے سورج گرہن کے مؤثر ہونے کا عقیدہ رکھے بغیر اگر کوئی احتیاط کرے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں، اسی طرح سورج گرہن کے موقع پر تجربہ یا تحقیق سے کسی اور امر کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے تو شرعًا کوئی عقیدہ رکھے بغیر اس سے احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (فتویٰ نمبر: 148\ 28، مؤرخہ: 26 ربیع الثانی 1440ھ)

📿 *سورج گرہن سے متعلق بنیادی مسائل:*
1⃣ سورج گرہن کے وقت دو رکعات نماز ادا کرنا سنت ہے جس کا وہی طریقہ ہے جو عام دو رکعات نفل نماز کا ہے، اس لیے ہر مسلمان مرد اور عورت کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کسی کو نماز کی ادائیگی کا موقع نہ ملے تو اسےدعاؤں، استغفار اور ذکر وتسبیحات میں مشغول رہنا چاہیے۔ (رد المحتار)
2️⃣ نمازِ کسوف باجماعت ادا کرنا سنت ہے، اس لیے مرد حضرات مساجد، عیدگاہ یا کھلے میدان میں باجماعت نماز کرنے کا اہتمام کریں، البتہ اگر کہیں جماعت کا انتظام نہ ہو تو انفرادی طور پر نمازِ کسوف ادا کرلی جائے۔ البتہ خواتین کو یہ نماز گھروں میں انفرادی طور پر ہی ادا کرنی چاہیے، جو خواتین حیض ونفاس کی وجہ سے نماز ادا نہیں کرسکتیں تو وہ دعاؤں، استغفار اور ذکر وتسبیحات میں مشغول رہیں۔
3⃣ نمازِ کسوف کے لیے اَذان واقامت سنت سے ثابت نہیں، اس لیے یہ نماز اذان واقامت کے بغیر ادا کی جائے گی، البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مناسب الفاظ میں اعلان کرنے میں حرج نہیں۔ (رد المحتار) جیسا کہ حدیث میں ’’اَلصَّلَاةُ جَامِعَةٌ‘‘ کے الفاظ مذکور ہیں، ملاحظہ فرمائیں سنن ابی داود:
1192- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ أَنَّهُ سَأَلَ الزُّهْرِىَّ فَقَالَ الزُّهْرِىُّ: أَخْبَرَنِى عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ رَجُلًا فَنَادَى أَنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ.
4⃣ نمازِ کسوف صرف انھی اوقات میں ادا کرنا جائز ہے جن میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے، اس لیے یہ نماز مکروہ اوقات میں ادا کرنا جائز نہیں۔ (رد المحتار)
5️⃣ نمازِ کسوف طویل ادا کرنی چاہیے، جس میں قیام، رکوع،  سجدے دعائیں، تسبیحات واَذکار وغیرہ طویل ہونے چاہیے۔ (رد المحتار)
☀ سنن ابی داود:
1189- عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ -وَسَاقَ الْحَدِيثَ- ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ.
1196- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَلَمْ يَكَدْ يَرْكَعُ ثُمَّ رَكَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ وَفَعَلَ فِى الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ نَفَخَ فِى آخِرِ سُجُودِهِ فَقَالَ: «أُفْ أُفْ»، ثُمَّ قَالَ: «رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِى أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ؟ أَلَمْ تَعِدْنِى أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ»، فَفَرَغَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ صَلَاتِهِ وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
6️⃣ نمازِ کسوف ادا کرنے کے بعد سورج گرہن ختم ہونے تک دعاؤں، توبہ واستغفار اور ذکر وتسبیحات میں مشغول رہنا چاہیے۔ ایسے میں اگر امام اور مقتدی مل کر دعا کرلیں اور مقتدی آمین کہتے جائیں تو یہ بھی درست ہے۔ (رد المحتار)
7️⃣ نمازِ کسوف میں قرأت آہستہ آواز سے کہی جائے گی یا بلند آواز سے؛ تو روایات سے دونوں طریقے ثابت ہیں، اس لیے دونوں ہی درست ہیں، البتہ چوں کہ یہ نماز طویل ہوتی ہے اس لیے اگر لوگوں کی نشاط اور توجہ برقرار رکھنے کے لیے آواز سے قرأت کرلی جائے تو بہتر ہے۔
▪ *اس حوالے سے جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:*
’’نمازِ کسوف میں امام قرأت آہستہ آواز سے کرے گا یا جہری قرأت کرے گا؛ اس میں ائمہ کرام کے درمیان اختلاف ہے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس میں قرأت سرّی ہے جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے ایک قول کے مطابق اس میں قرأت جہر ی ہے، اور کتب احادیث میں دونوں قول کے مطابق روایات ملتی ہیں، اس لیے دونوں طرح قرأت کرنا جائز ہے اور ہر طرح قرأت کرنے سے نماز درست ہو جائے گی، البتہ ابن عربی رحمہ اللہ نے جہرًا  قرأت کو اولیٰ قرار دیا ہے اور صاحب ِاعلاءالسنن علامہ ظفراحمد عثمانی کار جحان بھی اسی طرف معلوم ہو تا ہے۔‘‘  (فتویٰ نمبر: ۲۰۰/ ۳۸)
☀ سنن ابی داود:
-  💞💞💞💞💞

No comments: