Thursday, May 21, 2020

❤❤قضائے عمری کی شرعی حیثیت ❤❤

💞*قضائے عمری کی شرعی حیثیت*💞

آج کل ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو اس طریقہ سے نماز پڑھو تو ساری قضا نمازوں کی ادائیگی ہوجائے گی۔ یہ روایت من گھڑت ہے۔ لہذا اس کو بیان کرنا سرکارصلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان عظیم ہے۔

أنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - قال: "من فاتته صلوات، ولا يدري عددَها، فلْيصلِّ يومَ الجمعة أربع ركعاتٍ نَفْلًا بسلامٍ واحد، ويقْرأُ في كلِّ رَكعةٍ بعد الفاتحة آية الكرسي سبعَ مراتٍ، وإنَّ أعطيناك الكوثر خمس عشرة مرة".

قال علي بن أبي طلب رضي الله عنه: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إنْ فاتته صلوات سبعمائة سنة كانت هذه الصلاة كفارة لها. قالت الصحابة: إنَّما عُمر الإِنسان -أي: من هذه الأمة- سبعون سنة أو ثمانون؟ فقال
رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: كانت كفارة لما فاته، وما فاتَ من الصَّلوات من أبيه وأمِّه، ولفوائتِ أولادِهِ".ونيَّةُ هذه الصَّلاة أن يقول: نويْتُ أن أُصَلِّيَ أربعَ ركعاتٍ تَقْصيرًا وتكفيرًا لقضاءِ ما فاتَ مني في جميعِ عُمُري صلاةَ نفل متوجِّهًا إلى الكعبة۔

علامہ علی القاری رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق اپنی کتاب موضوعات میں لکھتے ہیں:
*باطل قطعا لأنہ مناقض للإجماع علی أن شیئا من العبادات لاتقومُ مقامَ فائتۃ سنوات*
یہ روایت قطعی و یقینی طور پر باطل ہے، اور اجماع کے خلاف ہے، کیوں کہ کوئی بھی عبادت کئی سال کی فوت شدہ نمازوں کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔

*علامہ زرقانی رحمہ اللہ شرح مواہب اللدنیہ میں اس روایت کے متعلق بیان فرماتے ہیں:*
وأقبح من ذلک ما اعتِید فی بعض البلاد مِن صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عَقِب صلٰوتھا زاعمین أنھا تکفّر صلٰوۃ العام أوالعمر المتروکۃ ، و ذلک حرام لوجوہٍ لا تخفی۔
( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ)
*بدترین طریقہ ہے جو کچھ شہروں میں ایجاد کرلیا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے بعد پانچ نمازیں پڑھ کر گمان کر لینا کہ یہ سال بھر یا سابقہ ساری عمر کا کفارہ ہو جائے گا۔ ایسا عمل ان وجوہات کی بناء پر حرام ہے جو کسی سے مخفی نہیں۔*

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق بیان فرماتے ہیں:
*فوت شدہ نمازوں کے کفارے کے طور پر یہ جو طریقہ قضائے عمری ایجاد کر لیا گیا ہے، یہ بدترین بدعت ہے، اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع من گھڑت ہے، اور یہ عمل سخت ممنوع ہے، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود ہے۔ اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانون کا اتفاق ہے۔*
( فتاوی رضویہ)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

No comments: