Tuesday, June 16, 2020

❤داڑھی کٹوانے کے مفاسد ❤


ڈاڑھی کٹوانے کے مفاسد 
داڑھی منڈوانے کی اکتالیس خرابیاں اور برائیاں ہیں :

(1) داڑھی منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔

(2) داڑھی منڈانے میں ہندووٴں کے مذہب کے ساتھ مشابہت ہے،
کیوں کہ ہندؤوں کے مذہب میں داڑھی منڈانا فرض ہے، جیسا کہ مولانا عبید اللہ نومسلم ولد کوٹے مل نے اپنی کتاب ”تحفة الہند“ میں ہندووٴں کا عقیدہ بیان فرمایا ہے۔

(3) داڑھی منڈانے میں قومِ نصاریٰ کی مشابہت ہے۔

(4) داڑھی منڈانے میں قومِ لوط کے غنڈوں کے ساتھ مشابہت ہے،
👈🏻 داڑھی منڈانے کی عادت اسی قوم سے شروع ہوئی ، اس سے پہلے مسلم وغیر مسلم سب کے سب لوگ داڑھیاں رکھتے تھے۔

(5) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت ہے۔

(6) تمام اولیاء اللہ کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں تمام اولیاء اللہ کی عملاً مخالفت ہے۔

(7) تمام صالحین وشہداء کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں ان تمام شہداء وصالحین کی عملاً مخالفت ہے۔

(8) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے:

”احفوا الشوارب، واعفوا اللحیٰ“․ یعنی: مونچھیں چھوٹی کرو اور داڑھیاں بڑھاوٴ۔ اب جب داڑھی منڈائی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور نافرمانی ہوئی
👈🏻 اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول﴾․ یعنی: اللہ تعالی کی مانو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مانو۔ اور فرمایا ہے:﴿ومن یعص اللہ ورسولہ، فإن لہ نار جھنم﴾ یعنی: جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا، تو اس کی خاطر جہنم کی آگ تیار ہے۔

(9) داڑھی منڈانے والے داڑھی کے بالوں کو عموماًیونہی پھینک دیتے ہیں، حالاں کہ انسان سے جد ا شدہ اعضاء، بال ، ناخن وغیرہ کو دفن کرنے کا حکم ہے، تو اس طرح حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ انسانی شرافت کی بھی توہین ہے۔

(10) ان بالوں کی (جو سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم تھے) اب توہین ہونے لگی ہے کہ پاوٴں کے نیچے آرہے ہیں اور اُڑ کر گندی جگہوں میں گر رہے ہیں۔

(11) داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سنتوں سے محروم رہتا ہے، مثلاً: وضو کرتے وقت داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(12) داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(13) داڑھی سفید ہو تو اس کو مہندی لگانا مستحب ہے، داڑھی منڈانے والا اس سے بھی محروم رہا۔

(14) داڑھی منڈانے والا فاسق ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے کہ لوگوں ! قیامت کے دن گواہ رہنا کہ میں فاسق ہوں۔

(15) داڑھی منڈا کر اپنے فسق، یعنی: اپنے گناہ کا اظہار کرنا بھی گناہ ہے۔

(16) اگر کسی نائی کو کہے کہ آکر میری داڑھی مونڈ، تو اس کو بھی گویا فسق کے کام کا حکم دیا۔

(17) اور اس حرام کام پر اس نائی کو اجرت دی اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا، 
👈🏻حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ﴾ یعنی: ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ضرور تعاون کرو، مگر ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔

(18) اس کو حرام مال کھانے کی ترغیب دی کہ حرام کما اور حرام کھا۔

(19) تبذیر کی، یعنی: اپنا پیسہ فضول کام میں لگا کر شیطان کا بھائی بن گیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ولا تبذر تبذیرا إن المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا﴾یعنی: فضول خرچی مت کرو، کیوں کہ فضو ل خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔
👈🏻 اور داڑھی منڈانے والے نے بھی اپنے رب کی دی ہوئی نعمت؛ مال کی قدر نہ کرتے ہوئے حرام کام میں ضائع کر دیا، تو شیطان کا بھائی بنا۔

(20) داڑھی منڈانے والے نے جس طرح اپنا مال ضائع کیا، ایسے ہی اس نے داڑھی منڈانے پر جتنا وقت لگایا ہے، اتنا وقت اس نے حرام کام میں ضائع کیا۔

(21) نیکی کے کام سے اتنے وقت میں محروم رہا۔

(22) جس طرح اپنا وقت برباد کیا اسی طرح نائی کا وقت بھی حرام کام میں ضائع کر دیا۔

(23) اور نیکی کے کام سے نائی کو بھی روک دیا۔

(24) داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کر دیا اور ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾ کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، یہ گناہ الگ اپنے سر چڑھایا۔

(25) شیطان کو خوش کیا، یہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔

(26) داڑھی منڈا کے شیشہ دیکھتا ہے اور قبیح شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے، یہ بھی گناہ ہے۔

(27) داڑھی منڈانے والے عموماً داڑھی والوں کو برا سمجھتے ہیں۔

(28) داڑھی والوں کے بارے میں کہانیاں اور کہاوتیں بناتے ہیں۔

(29) بکرے اور چھیلے اور سکھوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور مختلف پیراوٴں میں اشارے کرتے ہیں۔

(30) سنتِ رسول کا استہزا لازم آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تمام پیغمبروں، اولیاء، صوفیاء اور نیک لوگوں کی توہین اور استہزا لازم آتا ہے۔

(31) داڑھی منڈانے والے زبان سے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم داڑھی والوں کی طرح داڑھی کی آڑ میں شکار نہیں کرتے۔

(32) غیر قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں اور داڑھی والوں پر پھبتیاں اڑاتی ہیں۔

(33) داڑھی منڈانے سے شرم وحیا نہیں رہتا اور داڑھی منڈانے والا ہر گناہ بغیر جھجک کے کر گذرتا ہے اور داڑھی والا کچھ تو اپنی داڑھی کی لاج رکھے گا کہ اگر کوئی غلط کام اس سے ہو جائے تو طعنہ دینے والے اس کو طعنہ دیں گے اور شرمندہ ہو گا۔

(34) داڑھی منڈانے کے بارے میں کسی نے سوال کیا تو کہنا پڑتا ہے کہ ”فلاں! جو داڑھی منڈاتا ہے، وہ …؟“ تو غیبت کا ارتکاب ہوا اور اس غیبت کا سبب داڑھی منڈانے والاہو جائے گا۔

(35) داڑھی منڈوانے والے کی شہادت ناقابلِ اعتبار ہے، جیسا کہ تمام فقہاء نے لکھا ہے۔

(36) نائی نے کسی کی داڑھی مونڈی اور اتفاق سے ایسا ہو گیا کہ جس کی داڑھی مونڈی تھی ، اس کی داڑھی اگنے سے رُک گئی، یعنی: وہ آدمی کھوجا ہو گیا، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ اس نائی پر دیت لازم آئے گی، یعنی: اس کو جس کی داڑھی نہیں اُگی، سو اونٹ دینے (نائی کے ذمے)لازم ہوں گے۔

(37) داڑھی منڈانے والا اذان واقامت سے محروم ہو گیا، اس کی اذان واقامت مکروہ ہے۔

(38) داڑھی منڈانے والا امام نہیں بن سکتا، اس کی امامت مکروہ ہے۔

(39) داڑھی منڈانے والا نہ بغیر کراہت کے جمعہ پڑھ سکتا ہے، نہ عید پڑھ سکتا ہے، کیوں کہ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور فقہاء ِ کرام نے قاعدہ لکھا ہے: ”کل صلاة أدیت مع الکراھة وجبت إعادتھا“ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی جائے، اس کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے، تا کہ بغیر کراہت کے نماز صحیح ہو سکے اور عیدین وجمعہ کی نماز کا اعادہ نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ جُرم اس قدر بڑا ہے کہ اس کا تدارک مشکل ہے۔

(40)داڑھی منڈوانے والے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعاء 
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدنی دور میں مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے، ان خطوط میں ایک خط ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھی تھا، اس کے پاس جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، تو اس بدبخت نے نہایت توہین آمیز انداز میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اپنے گورنر ”باذان “کو (جو یمن کا حاکم تھا) لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس خط لکھنے والے شخص کو گرفتار کر کے لے کر آئیں، چناں چہ یمن کے حاکم نے تعمیلِ ارشاد میں دو آدمی مدینہ کی طرف بھیجے، وہ دونوں شخص جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس حال میں کہ ( ان کی ہیئت یہ تھی کہ)انہوں نے اپنی داڑھیوں کو منڈایا ہوا تھا اور اپنی مونچھوں کولمبا کیا ہوا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے کو (بھی) ناپسند فرمایااور (سخت ناگواری سے) فرمایا: 
👈🏻👈🏻👈🏻تمہارے لیے ہلاکت (اور بربادی) ہو، تم کو یہ حلیہ اپنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس (حلیہ اپنانے) کا حکم دیا ہے، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے اس جواب کے بعد ارشاد فرمایا : لیکن میرے رب نے مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔

قال محمد بن إسحاق: وبعث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عبد اللہ بن حذافة بن قیس بن عدي بن سعد بن سہم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز ملک فارس وکتب معہ: …،فلما قریٴ کتاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شققہ، وقال: یکتب إليَّ بھٰذا الکتاب وھو عبدي؟…ثم کتب کسریٰ إلیٰ باذان وھو علیٰ الیمن: إبعث إلیٰ ھٰذا الرجل الذي بالحجاز من عندک رجلین جلدین، فلیأتیاني بہ … فخرجا حتیٰ قدما إلیٰ المدینة علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، … وقد دخلا علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وقد حلقا لحاھما، وأعفیا شواربھما، فکرہ النظر إلیھما، وقال: 
👈🏻👈🏻👈🏻ویلکما، مَن أمرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ- فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي، ثم قال لھما: إرجعا حتیٰ تأتیاني غداً، وأتیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الخبرُ أن اللہ عزوجل قد سلط علیٰ کسریٰ ابنَہ شیرویہ، فقتلہ في شھر کذا وکذا، في لیلة کذا وکذا، لعدة ما مضی من اللیل…قال: نعم! أخبراہ ذلک عني، وقولا لہ: إن دیني وسلطاني سیبلغ ما بلغ ملک کسریٰ، وینتھي إلیٰ منتھیٰ الخفِّ والحافر، وقولا لہ: إنک إن أسلمت أعطیتک ما تحت یدیک، وملّکتک علی قومک من الأبناء……إلخ“․
(دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبھاني)

(41)داڑھی منڈوانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری
ایک فارسی شاعر کا قصہ
مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہو گیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے)داڑھی کا صفایا کر رہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہاکہ:

”آغا! ریش می تراشی؟“ (جناب ! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں ؟!)

مرزا نے جواب دیا:
” بلے ! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم“․ (ہاں ! ہاں! اپنے ہیبال تراش رہا ہوں ، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔)

گویا : ”دل بدست آورکہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔

ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا:
”بلے دل رسول می تراشی“․ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔)

یہ سن کر مرزا کو وجد آ گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا:
        جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
         مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی
(آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)“۔

پس اگرمحبوبِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھائیں۔
فقط واللہ الھادی الی سواء السبیلڈاڑھی کٹوانے کے مفاسد 
داڑھی منڈوانے کی اکتالیس خرابیاں اور برائیاں ہیں :

(1) داڑھی منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔

(2) داڑھی منڈانے میں ہندووٴں کے مذہب کے ساتھ مشابہت ہے،
کیوں کہ ہندؤوں کے مذہب میں داڑھی منڈانا فرض ہے، جیسا کہ مولانا عبید اللہ نومسلم ولد کوٹے مل نے اپنی کتاب ”تحفة الہند“ میں ہندووٴں کا عقیدہ بیان فرمایا ہے۔

(3) داڑھی منڈانے میں قومِ نصاریٰ کی مشابہت ہے۔

(4) داڑھی منڈانے میں قومِ لوط کے غنڈوں کے ساتھ مشابہت ہے،
👈🏻 داڑھی منڈانے کی عادت اسی قوم سے شروع ہوئی ، اس سے پہلے مسلم وغیر مسلم سب کے سب لوگ داڑھیاں رکھتے تھے۔

(5) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت ہے۔

(6) تمام اولیاء اللہ کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں تمام اولیاء اللہ کی عملاً مخالفت ہے۔

(7) تمام صالحین وشہداء کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں ان تمام شہداء وصالحین کی عملاً مخالفت ہے۔

(8) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے:

”احفوا الشوارب، واعفوا اللحیٰ“․ یعنی: مونچھیں چھوٹی کرو اور داڑھیاں بڑھاوٴ۔ اب جب داڑھی منڈائی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور نافرمانی ہوئی
👈🏻 اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول﴾․ یعنی: اللہ تعالی کی مانو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مانو۔ اور فرمایا ہے:﴿ومن یعص اللہ ورسولہ، فإن لہ نار جھنم﴾ یعنی: جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا، تو اس کی خاطر جہنم کی آگ تیار ہے۔

(9) داڑھی منڈانے والے داڑھی کے بالوں کو عموماًیونہی پھینک دیتے ہیں، حالاں کہ انسان سے جد ا شدہ اعضاء، بال ، ناخن وغیرہ کو دفن کرنے کا حکم ہے، تو اس طرح حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ انسانی شرافت کی بھی توہین ہے۔

(10) ان بالوں کی (جو سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم تھے) اب توہین ہونے لگی ہے کہ پاوٴں کے نیچے آرہے ہیں اور اُڑ کر گندی جگہوں میں گر رہے ہیں۔

(11) داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سنتوں سے محروم رہتا ہے، مثلاً: وضو کرتے وقت داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(12) داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔

(13) داڑھی سفید ہو تو اس کو مہندی لگانا مستحب ہے، داڑھی منڈانے والا اس سے بھی محروم رہا۔

(14) داڑھی منڈانے والا فاسق ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے کہ لوگوں ! قیامت کے دن گواہ رہنا کہ میں فاسق ہوں۔

(15) داڑھی منڈا کر اپنے فسق، یعنی: اپنے گناہ کا اظہار کرنا بھی گناہ ہے۔

(16) اگر کسی نائی کو کہے کہ آکر میری داڑھی مونڈ، تو اس کو بھی گویا فسق کے کام کا حکم دیا۔

(17) اور اس حرام کام پر اس نائی کو اجرت دی اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا، 
👈🏻حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ﴾ یعنی: ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ضرور تعاون کرو، مگر ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔

(18) اس کو حرام مال کھانے کی ترغیب دی کہ حرام کما اور حرام کھا۔

(19) تبذیر کی، یعنی: اپنا پیسہ فضول کام میں لگا کر شیطان کا بھائی بن گیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ولا تبذر تبذیرا إن المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا﴾یعنی: فضول خرچی مت کرو، کیوں کہ فضو ل خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔
👈🏻 اور داڑھی منڈانے والے نے بھی اپنے رب کی دی ہوئی نعمت؛ مال کی قدر نہ کرتے ہوئے حرام کام میں ضائع کر دیا، تو شیطان کا بھائی بنا۔

(20) داڑھی منڈانے والے نے جس طرح اپنا مال ضائع کیا، ایسے ہی اس نے داڑھی منڈانے پر جتنا وقت لگایا ہے، اتنا وقت اس نے حرام کام میں ضائع کیا۔

(21) نیکی کے کام سے اتنے وقت میں محروم رہا۔

(22) جس طرح اپنا وقت برباد کیا اسی طرح نائی کا وقت بھی حرام کام میں ضائع کر دیا۔

(23) اور نیکی کے کام سے نائی کو بھی روک دیا۔

(24) داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کر دیا اور ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾ کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، یہ گناہ الگ اپنے سر چڑھایا۔

(25) شیطان کو خوش کیا، یہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔

(26) داڑھی منڈا کے شیشہ دیکھتا ہے اور قبیح شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے، یہ بھی گناہ ہے۔

(27) داڑھی منڈانے والے عموماً داڑھی والوں کو برا سمجھتے ہیں۔

(28) داڑھی والوں کے بارے میں کہانیاں اور کہاوتیں بناتے ہیں۔

(29) بکرے اور چھیلے اور سکھوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور مختلف پیراوٴں میں اشارے کرتے ہیں۔

(30) سنتِ رسول کا استہزا لازم آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تمام پیغمبروں، اولیاء، صوفیاء اور نیک لوگوں کی توہین اور استہزا لازم آتا ہے۔

(31) داڑھی منڈانے والے زبان سے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم داڑھی والوں کی طرح داڑھی کی آڑ میں شکار نہیں کرتے۔

(32) غیر قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں اور داڑھی والوں پر پھبتیاں اڑاتی ہیں۔

(33) داڑھی منڈانے سے شرم وحیا نہیں رہتا اور داڑھی منڈانے والا ہر گناہ بغیر جھجک کے کر گذرتا ہے اور داڑھی والا کچھ تو اپنی داڑھی کی لاج رکھے گا کہ اگر کوئی غلط کام اس سے ہو جائے تو طعنہ دینے والے اس کو طعنہ دیں گے اور شرمندہ ہو گا۔

(34) داڑھی منڈانے کے بارے میں کسی نے سوال کیا تو کہنا پڑتا ہے کہ ”فلاں! جو داڑھی منڈاتا ہے، وہ …؟“ تو غیبت کا ارتکاب ہوا اور اس غیبت کا سبب داڑھی منڈانے والاہو جائے گا۔

(35) داڑھی منڈوانے والے کی شہادت ناقابلِ اعتبار ہے، جیسا کہ تمام فقہاء نے لکھا ہے۔

(36) نائی نے کسی کی داڑھی مونڈی اور اتفاق سے ایسا ہو گیا کہ جس کی داڑھی مونڈی تھی ، اس کی داڑھی اگنے سے رُک گئی، یعنی: وہ آدمی کھوجا ہو گیا، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ اس نائی پر دیت لازم آئے گی، یعنی: اس کو جس کی داڑھی نہیں اُگی، سو اونٹ دینے (نائی کے ذمے)لازم ہوں گے۔

(37) داڑھی منڈانے والا اذان واقامت سے محروم ہو گیا، اس کی اذان واقامت مکروہ ہے۔

(38) داڑھی منڈانے والا امام نہیں بن سکتا، اس کی امامت مکروہ ہے۔

(39) داڑھی منڈانے والا نہ بغیر کراہت کے جمعہ پڑھ سکتا ہے، نہ عید پڑھ سکتا ہے، کیوں کہ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور فقہاء ِ کرام نے قاعدہ لکھا ہے: ”کل صلاة أدیت مع الکراھة وجبت إعادتھا“ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی جائے، اس کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے، تا کہ بغیر کراہت کے نماز صحیح ہو سکے اور عیدین وجمعہ کی نماز کا اعادہ نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ جُرم اس قدر بڑا ہے کہ اس کا تدارک مشکل ہے۔

(40)داڑھی منڈوانے والے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعاء 
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدنی دور میں مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے، ان خطوط میں ایک خط ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھی تھا، اس کے پاس جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، تو اس بدبخت نے نہایت توہین آمیز انداز میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اپنے گورنر ”باذان “کو (جو یمن کا حاکم تھا) لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس خط لکھنے والے شخص کو گرفتار کر کے لے کر آئیں، چناں چہ یمن کے حاکم نے تعمیلِ ارشاد میں دو آدمی مدینہ کی طرف بھیجے، وہ دونوں شخص جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس حال میں کہ ( ان کی ہیئت یہ تھی کہ)انہوں نے اپنی داڑھیوں کو منڈایا ہوا تھا اور اپنی مونچھوں کولمبا کیا ہوا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے کو (بھی) ناپسند فرمایااور (سخت ناگواری سے) فرمایا: 
👈🏻👈🏻👈🏻تمہارے لیے ہلاکت (اور بربادی) ہو، تم کو یہ حلیہ اپنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس (حلیہ اپنانے) کا حکم دیا ہے، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے اس جواب کے بعد ارشاد فرمایا : لیکن میرے رب نے مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔

قال محمد بن إسحاق: وبعث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عبد اللہ بن حذافة بن قیس بن عدي بن سعد بن سہم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز ملک فارس وکتب معہ: …،فلما قریٴ کتاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شققہ، وقال: یکتب إليَّ بھٰذا الکتاب وھو عبدي؟…ثم کتب کسریٰ إلیٰ باذان وھو علیٰ الیمن: إبعث إلیٰ ھٰذا الرجل الذي بالحجاز من عندک رجلین جلدین، فلیأتیاني بہ … فخرجا حتیٰ قدما إلیٰ المدینة علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، … وقد دخلا علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وقد حلقا لحاھما، وأعفیا شواربھما، فکرہ النظر إلیھما، وقال: 
👈🏻👈🏻👈🏻ویلکما، مَن أمرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ- فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي، ثم قال لھما: إرجعا حتیٰ تأتیاني غداً، وأتیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الخبرُ أن اللہ عزوجل قد سلط علیٰ کسریٰ ابنَہ شیرویہ، فقتلہ في شھر کذا وکذا، في لیلة کذا وکذا، لعدة ما مضی من اللیل…قال: نعم! أخبراہ ذلک عني، وقولا لہ: إن دیني وسلطاني سیبلغ ما بلغ ملک کسریٰ، وینتھي إلیٰ منتھیٰ الخفِّ والحافر، وقولا لہ: إنک إن أسلمت أعطیتک ما تحت یدیک، وملّکتک علی قومک من الأبناء……إلخ“․
(دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبھاني)

(41)داڑھی منڈوانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری
ایک فارسی شاعر کا قصہ
مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہو گیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے)داڑھی کا صفایا کر رہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہاکہ:

”آغا! ریش می تراشی؟“ (جناب ! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں ؟!)

مرزا نے جواب دیا:
” بلے ! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم“․ (ہاں ! ہاں! اپنے ہیبال تراش رہا ہوں ، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔)

گویا : ”دل بدست آورکہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔

ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا:
”بلے دل رسول می تراشی“․ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔)

یہ سن کر مرزا کو وجد آ گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا:
        جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
         مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی
(آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)“۔

پس اگرمحبوبِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھائیں۔
فقط واللہ الھادی الی سواء السبیل

No comments: