سر لیکچر دیتے دیتے یکدم رک گئے ۔ اور اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔سر میں نماز کے لیے جانا چاہتا ہوں ۔
سر نے ایک استہزائیہ نگاہ اس کے وجود پر ڈالی ، ناگواری سے اس کی جانب دیکھا اور بولے ۔تمہارے لیے کوئی اور نہیں آئے گا یہاں لیکچر دینے !کوئی بات نہیں سر ،میں نوٹس لے لوں گا ! وہ بہت آرام سے بولا ۔نوٹس لے لوں گا !
سر نے مذاق اڑایا ۔
میرا لیکچر میرے الفاظ ، یہ کلاس کا ماحول کہاں سے لو گے ؟
میرا لیکچر ختم ہونے دو ، پھر جتنی نمازیں پڑھنی ہوں پڑھتے رہنا ،ساری رات پڑھنا کوئی نہیں روکے گا تمہیں ۔
کلاس کی دبی دبی ہنسی ابھرنے لگی ۔
سر مجھے جانا ہے ۔
ہمارے لیے نمازوں کو وقت مقرر پر فرض کیا گیا ہے ۔
! حذیفہ کا لہجہ قطعی تھا ۔
گیٹ آؤٹ !
سر یکدم چیخے !
شکریہ سر ۔ اس کا لہجہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا ۔
کسی مشین کی مانند حذیفہ چل کھڑا ہوا اور کلاس سے نکل گیا ۔
کلاس کو سانپ سونگھ گیا ۔ ۔
مولوی کہیں کا ، نہ جانے کہاں سے اٹھ آتے ہیں ، اتنا ہی شوق ہے نمازوں کا ، تو یہاں کیا لینے آیا تھا ،
سٹوپڈ کہیں کا !
سراس کے جانے کے بعد بڑبڑارہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
میم میں جاسکتی ہوں ؟
واٹ ؟
میم کین آئی لیو دا کلاس ؟
یس ، بٹ وائے ؟
میم نے تیوری چڑھا کر پوچھا ۔
میم مجھے نماز پڑھنی ہے ۔ یمنی نے متانت سے کہا ۔
میم نے ناگواری سے اس کی جانب دیکھا اور بولیں ۔
ہم بھی مسلمان ہیں، ہم بھی نماز پڑھتے ہیں ۔
بعد میں پڑھ لینا ،
۔ یہ لیکچر بعد میں کون سمجھائے گا تمہیں۔
میم مجھے بس پانچ منٹ چاہییں ۔
اوکے لیو دا کلاس !
میم نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا اور تیوری چڑھا کر بورڈ کی جانب متوجہ ہوگئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اگلا دن)
کشادہ پیشانی ، چوڑا چہرہ ،چکمتی آنکھیں گھنی داڑھی ، اور ٹخنوں سے اوپر شلوار !
اس وجود کو پرنسپل کچھ دن قبل بھی دیکھ چکے تھے ۔
آج یہ وجود پھر سے ان کے روبرو بیٹھا تھا ۔
السلام علیکم !
اکیڈمی کے پرنسپل گھٹن محسوس کررہے تھے ۔
وعلیکم السلام ۔!
میرا حسن ظن تھا کہ اگر طلبا نمازکے لیے جانا چاہیں تو انہیں بسر وچشم اجازت دی جاتی ہوگی ، مگر یہاں معاملہ خاصا مختلف تھا ۔
کیا کہنا چاہتے ہیں آپ ؟ پرنسپل نے گلاس میں پانی انڈیلا ۔
میرے دو بچے یہاں پڑھتے ہیں ،انہیں بوقت نماز ، کلاس سے جانے کی اجازت دیجئے !
انہیں روکا نہ جائے !
دیکھیے مولانا ! پرنسپل نے پانی کا گھونٹ بھرا ۔
استاد کا لیکچر بڑا اہم ہوتا ہے ، بچہ کا حرج ہوگا ۔ وہ اسے پورا نہیں کر سکے گا ۔
انہوں نے نہایت تحمل سے مولانا کو سادہ الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ۔
استاد کا لیکچر نہایت اہم ہوتا ہے ، اسی لیے اسے اکیڈمی میں بھیجا جاتا ہے ،
مولانا بولے ۔ مگر نماز اس سے بھی اہم ہوتی ہے ،اور وقت مقرر پر فرض ہوتی ہے ۔ اور نمازوں کو ضائع کرنے کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے ۔
ٹھیک ہے ، مگر اسٹڈیز کا نقصان کون پوار کرے گا ۔
اب پرنسپل کی پیشانی پر بھی شکن ابھر آئی تھی ۔
وہ رب کرم پورا کروادے گا ، میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں ! مولانا کا لہجہ یقین سے بھرپور تھا ۔
ٹھیک ہے جناب!
پرنسپل صاحب اب انہیں باہر کی راہ دکھا رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یمنی کلاس سے اکیلی ہی نکلتی تھی ، اور حذیفہ بھی روزانہ اکیلا اُٹھتا اور فلاح کی پکار پہ لبیک کہتا۔
ابتدا میں سب حیران ہوتے پھر جیسے یہ معمول بن گیا ۔
نویں کلاس کا رزلٹ آیا ، یمنی ٹاپ کر گئی ، وہاں حذیفہ بھی فرسٹ آیا ۔
ایک دھوم مچ گئی ۔
آج سب بچھے چلے جارہے تھے ۔ سب ان کے آگے پیچھے تھے ۔
اکیڈمی کی آیا جی نہایت مسرت سے بولیں ، یمنی بیٹا تم روزانہ نماز کے لیے اوپر جاتی تھی آج اللہ نے تمہیں سب سے اوپر کر دیا ہے ۔ !
جانے کیا ہوا ! اب حذیفہ نماز کے لیے تنہا نہیں ہوتا ۔
ایک جم غفیر اس کے ہمراہ ہوتا ۔
سر کو بریک دینا پڑتی ۔ لڑکے مساجد میں چلے جاتے ۔
سر نے چٹائی منگوالی ،اور کہا یہیں جماعت کروا لیا کرو ۔
نتیجتا ۔۔۔ اکیڈمی جہاں نماز کا مذاق اڑایا جارہا تھا آج وہاں آذان گونجتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اڑا ۔، حذیفہ ڈاکٹر بن گیا ، یمنی گولڈ میڈلسٹ بن گئی ۔
وہی اکیڈمی وہی لوگ ۔ اکیڈمی کا نام روشن ہوچکا تھا ۔ بڑے بڑے بینرز لگ رہے تھے ۔ داخلوں میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا تھا
آج اس کے اعزاز میں بڑی بڑی تقاریب ہورہی تھیں ۔
اور لوگ جان رہے تھے ۔
جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے لگ جاتا ہے ، وہ عظیم کامیابی پاتا ہے ۔
حقیقی عزت اس کے لیے ہوتی ہے جو دین کو اول پہ رکھتا ہے ۔ جو اللہ کی پہلی آواز پہ لبیک کہتا ہے ، اللہ بھی اسے اول کردیتا ہے ! اللہ کا وعدہ ھے تم میرے لیے وقت نکالوں میں تمھارا کام آسان کردو گا ۔۔۔!!!
نماز قائم کرو
No comments:
Post a Comment